یہ ارود محفل ہے یا مکتبِ عشق۔۔۔۔۔۔ مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا۔۔۔۔۔۔ ’اس کو ’چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد رہا۔
ویسے ہمیں چھٹی ہرگز نہیں چاہیے۔۔ اوّل تو یہ کہ ہم بہت اچھے بچے ہیں۔ دوسرے یہ کہ۔۔۔۔۔ نہیں نہیں ہم یہ ہرگز نہیں بتا سکتے۔
ایک ڈرائیور کو ایکسیڈنٹ کرنے پر جیل ہو گئی۔ عدالت میں پیشی ہوئی۔
جج نے پوچھا۔۔ تم نے ایکسیڈنٹ کیسے کیا ؟
ڈرائیور : مینوں کی پتا جی۔۔میں تے ’ستّا ہویا سی۔
پہلا شخص: اگر پراٹھے اور پیزا کو پچاس ’فٹ کی بلندی سے گرایا جائے تو کونسی چیز پہلے زمین پر پہنچے گی۔
دوسرا شخص: پیزا
پہلا شخص: وہ کیسے ؟
دوسرا شخص: چونکہ پیزا فاسٹ فوڈ ہے۔
پہلا دوست : اک واری میں چھوٹا جیا ہوندا سی۔۔ تے میں مینارِ پاکستان توں ڈگ گیا سی۔
دوسرا دوست: فیر مر گیا سی یا بچ گیا سی ؟
پہلا دوست : مینوں کی پتا میں تے چھوٹا جیا ہوندا سی۔
ایک شخص بس میں سوار ہوا۔۔۔ ’اس کے سامنے ایک مشکوک شخص آ کر بیٹھ گیا۔ پہلا شخص ڈر گیا اور دوسرے شخص سے پوچھا۔۔۔۔ سر جی۔۔۔ ’تسی دم درود والے او۔۔ یا فیر بم بارود والے۔
ماشا اللہ۔۔۔ نور سحر بٹیا نے کمال تحریر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر دراز فرمائے نیز دین و دنیا کی تمام نعمتیں نور سحر کے شامل حال رہیں۔(آمین)
شمشاد بھائی بھی داد کے مستحق ٹھہرے، کہ نور سحر کی تحریر کو ہمارے سمجھنے کے قابل بنایا۔
اللَّهُمّ صَلٌ علَےَ مُحمَّدْ و علَےَ آل مُحمَّدْ كما صَلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ ۔
اللَّهُمّ بارك علَےَ مُحمَّدْ و علَےَ آل مُحمَّدْ كما باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ ۔
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾
(سورة الإسراء)
ترجمہ : اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔