جی ہاں خرم جی، یہ چند سال پہلے کریسنٹ ماڈل سکول، فیصل آباد میں ہونے والے مباحثے میں ایک طالب علم نے کی تھی۔ یوٹیوب پر بہت مقبول تھی۔ واقعی اس بچے کی کارکردگی بہت اعلی تھی۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ گمان غالب ہے کہ یہ پوسٹ کرتے وقت، ہو سکتا ہے، ان کا ارادہ صرف ہلکا سا مزاح پیدا کرنا ہو اور ان کے ذہن میں یہ سب باتیں نہ ہوں۔ جو مادری زبان کے حوالے سے کی گئی ہیں اورجن کا مقصدصرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ دیگر اقدار کی طرح ماں بولی بھی احترام کی مستحق ہے۔
چنانچہ...
یہ قباحت آج کے دور میں ہی نہیں بلکہ آج سے چالیس سال پہلے سے (بلکہ ہو سکتا ہے پہلے سے بھی) پائی جاتی ہے، جب ہم سٹیج پر تقاریر کرتے تھے۔ مجھےیاد ہے کہ زرعی یونیورسٹی کے 1972 کے پنجابی ٹاکرے میں موضوع بحث تھا 'رانجھا پاگل سی' اور میں 'پرھیا دا موہری' یعنی قائد ایوان تھا یعنی مجھے ہیر رانجھا کے قصے...
جناب امجد صاحب، گستاخی معاف، اپنی مادری زبان کی تضحیک نہ کرنےکی گذارش کرنے کو میں ہرگز احساس کمتری نہیں سمجھتا بلکہ اس کی سربلندی کے لئے تو ہمیں سر اٹھا کر اس کی حمایت میں بات کرنی چاہئے۔ میں نے اپنی گزارش میں مزاح کو ادب کا حصہ یا ادب کو زبان کی روح قرار دینے سے انکار والی کوئی بات نہیں کی۔ اس...
مین تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کے ترجمے سے ضرور مزاح پیدا ہوا ہے اور یقیناً چند لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بھی آگئی ہوگئی، تاہم، بے ادبی معاف، مجھے ایک گذارش کرنی ہے کہ یہی ترجمہ سنجیدہ اور ثقہ الفاظ پر بھی مشتمل ہو سکتا تھا جو یقیناً لوگوں کے علم میں اضافے کا باعث ہوتا۔ ایسے ہی اقدامات کی بنا پر...
بھئی کسر نفسی ہرگز نہیں کی۔ میں نے یہ بات کسی وجہ سےہی لکھی ہے۔ مثلا مندجہ ذیل تراکیب، جو میرے لئے نئی ہیں، پڑھ کر میں بہت محظوظ ہوا ہوں:
'وٹامن شی'
'مرزا ہٹ'
"سوا" "لات"
'صنف کرخت'
"شر" "افت"
'ٹناری'
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
ان رسائل میں تو یہ باتیں تجارتی فائدے اور سیلز بڑھانے کے لئے چھاپی جاتی ہیں اور ان میں کسی قدر غلو بھی ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ذکر ان مقاصد کے لئے نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ یہ تو ایک الگ ہی دنیا ہے۔
شراکت کا شکریہ، بٹ جی۔ٖ
غالب کی ایک اورمشہور غزل کا صوفی تبسم مرحوم نے بھی بے مثال ترجمہ کیاہے۔ (میرے شوق دا نئیں اعتبار تینوں، آجا وکھ میرا انتظار آجا) اور غلام علی نے گاکر اسے امر بنا دیا ہے۔