شعورو فہم کی سرحد سے کتنی دور پرے
میں سوچتا تھا کبھی میں بھی لفظ لکھوں گا
ترے جمال کے خوش بخت موسموں میں کبھی
میں تیرے حسن کی ساری تہوں کو سمجھوں گا
گلاب کی طرح کھلتے ہوئے ترے عارض
کنول نما تیری آنکھوں کے خوشنما دو جام
وہ تیری زلف کہ شاموں کی پہرہ دار سدا
وہ تیرے ہونٹ کہ جن سے جلیں گلاب...