اِک آرزو تھی جو حسرت میں ڈھل چکی کب کی
مگرخیال سے شہنائیاں نہیں جاتیں
.
ہزارمحفلِ خُوباں میں جا کے دیکھ لیا
مِلی جو تُجھ سے ہیں تنہائیاں نہیں جاتیں
.
شفیق خلؔش
فِطرت کبھی نہ لالہ وگُل کی بدل سکی
آ آ کے انقلاب گُلِستاں میں رہ گئے
لتھڑی ہُوئی ہے خون میں آزادئ وطن
اچھّے رہے وہ لوگ جو زنداں میں رہ گئے
سیمابؔ اکبر آبادی
تِیرَگی میں زِیست کی ، دو دِل نبوّت کرچکے
نامِ اُلفت لینے والے،ترکِ اُلفت کرچکے
لب مِرے، جو کچھ بھی کرنا تھی شکا یت، کرچکے
ختم افسانہ ہُوا ، ہم تم محبّت کر چکے
پنڈت آنند نرائن مُلّا
ہارے ہُوئے ہیں معرکۂ اعتبار کے
مارے ہُوئے ہیں وعدۂ دِیدارِ یار کے
اپنے ہی دِل کو مار لِیا مار مار کے
دیکھے تو کوئی جبر مِرے اختیار کے
گنتے ہیں سانس زندگیِ مستعار کے !
بیٹھے ہیں اِنتظار میں روزِ شُمار کے
حفؔیظ جالندھری
غزلِ
محشؔر بدایونی
شاعری حسبِ حال کرتے رہے
کون سا ہم کمال کرتے رہے
کھائے اوروں نے پھل درختوں کے
ہم تو بس دیکھ بھال کرتے رہے
سارا دِن دُکھ سمیٹتے گُذرا
شب کو ، ردِّ ملال کرتے رہے
آدمی کیوں ہے بے خیال اِتنا ؟
خود سے ہم یہ سوال کرتے رہے
اور کیا پاسِ زخم کرتے لوگ
کوششِ اندمال کرتے رہے...
خرابے میں سَرِ شامِ تمنّا، اے شہِ خوباں !
لگا ، خانہ خرابوں کا ہے اِک دربار، آنِکلو
تمھاری نرگسِ بیمار ہی کے آسرے پر ہیں
تمھاری نرگسِ بیمار کے بیمار ، آ نِکلو
جون ایلیا
کبھی سانس لی جو خیال میں، تِری جلوہ گاہِ وصال میں
تو ہَوائے فُرقتِ شہرِ دِل، سَرِ رہگزار مہک اُٹھی
وہ شمیمِ قول و قرار جاں، مجھے یاد آئی جو ناگہاں !
تو مِرے وجود میں پھر کوئی، شبِ اِنتظار مہک اُٹھی
جون ایلیا