سفینہ میرا ساحل آشنا معلوم ہوتا ہے
مجھے یہ بھی فریبِ ناخدا معلوم ہوتا ہے
ترے غم کا جہاں تک سلسلہ معلوم ہوتا ہے
وہیں تک میری ہستی کا پتا معلوم ہوتا ہے
نہ پوچھ اے دوست! شامِ غم میں کیا معلوم ہوتا ہے
مجھے ہر دم قضا کا سامنا معلوم ہوتا ہے
بہ ہر لحظہ، بہ ہر ساعت سِوا معلوم ہوتا ہے
تمہارا غم طبیعت...