یہ جو سر گشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
اب مہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے ہیں اب تو شب و روز عذابوں والے
جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے
یوں تو لگتا ہے قسمت کا سکندر ہے فراز
مگر انداز ہیں سب خانہ...