غزلِ
شیخ محمد ابراہیم ذوق
برسوں ہو ہجر، وصل ہو گر ایک دَم نصِیب
کم ہوگا کوئی مجھ سا محبّت میں کم نصِیب
گر میری خاک کو ہوں تمھارے قدم نصِیب
کھایا کریں نصِیب کی میرے قسم نصِیب
ماہی ہو یا ہو ماہ، وہ ہو ایک یا ہزار!
بے داغ ہو نہ دستِ فلک سے درِم نصِیب
بہتر ہے لاکھ لُطف و کرم سے تِرے...
غزلِ
میر تقی میؔر
چمکی ہے جب سے برق ِسَحر گُلستاں کی اور
جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں ، کہ رفتگاں
مُنہ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں!
رہجاتے ہیں گےدیکھ کے گُل اُس دَہاں کی اور
آنکھیں سی کُھل ہی جائیں گی...
ہوگیا بدر ہلال اِس کا سبب روشن ہے
روز گھستا تھا تِرے در پہ جبیں تھوڑی سی
منزلِ گور میں کیا خاک مِلے گا آرام
خُو تڑپنے کی وہی، اور زمِیں تھوڑی سی
آپ کو غیر کی راحت کا مُبارک ہو خیال
خیر تکلیف اُٹھالیں گے ہَمِیں تھوڑی سی
اکبر الٰہ آبادی
تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے
کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے
ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر ، اے نسیم!
اُٹھتے ہی آشیاں سے گرفتار ہو گئے
وہ تو گلے لگا ہُوا سوتا تھا خواب میں
بخت اپنے سو گئے، کہ جو بیدار ہو گئے
میر تقی میؔر
کمال کی غزل ہے ،نہ صرف ردیف کی خوبصورت بندش پر
بلکہ
ہر شعر ،حرف حرف کا استعمال نہایت استادانہ ہے
مبتدیوں کے لئے مفید اور کہنہ مشقوں کے لئے لطف کی حامل غزل عروضی اسباق اورتقطیع کے لئے اچھا اضافہ ہے
بہت تشکر سید ذیشان صاحب