غزل
نجمہ انصار نجمہ
اے دِل ! یہ تِری شورشِ جذبات کہاں تک
اے دِیدۂ نم اشکوں کی برسات کہاں تک
برہَم نہیں ہم، آپ کی بیگانہ روِی سے !
اپنوں سے مگر ترکِ مُلاقات کہاں تک
آخر کوئی مہتاب تو ہو اِس کا مُقدّر
بھٹکے گی سِتاروں کی یہ بارات کہاں تک
ہو جاتا ہے آنکھوں سے عیاں جُرمِ محبّت
پوشِیدہ...
غزل
فریب کھا کے بھی اِک منزلِ قرار میں ہیں
وہ اہلِ ہجر، کہ آسیبِ اعتبار میں ہیں
زمِین جن کے لِیے بوجھ تھی، وہ عرش مِزاج
نہ جانے کون سے مَحوَر پہ، کِس مَدار میں ہیں
پُرانے درد، پُرانی محبّتوں کے گُلاب
جہاں بھی ہیں، خس و خاشاک کے حِصار میں ہیں
اُڑائی تھی جو گروہِ ہوَس نہاد نے دُھول ...
غزل
ایک اور تازیانۂ منظر لگا ہمَیں
آ، اے ہَوائے تازہ! نئے پَر لگا ہمَیں
ندّی چڑھی ہُوئی تھی تو، ہم بھی تھے موج میں
پانی اُتر گیا تو بہت ڈر لگا ہمَیں
گُڑیوں سے کھیلتی ہُوئی بچّی کی آنکھ میں
آنسو بھی آگیا، تو سمندر لگا ہمَیں
بیٹا گِرا جو چھت سے پتنگوں کے پَھیر میں
کُل آسماں پتنگ برابر لگا...
غزل
اِک آفتِ جاں ہے جو مداوا مِرے دِل کا
اچّھا کوئی پھر کیوں ہو مسِیحا مِرے دل کا
کیوں بِھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشہ ہے تڑپنا مِرے دِل کا
بازارِ محبّت میں کمی کرتی ہے تقدِیر
بن بن کے بِگڑ جاتا ہے سودا مِرے دِل کا
گر وہ نہ ہُوئے فیصلۂ حشْر پہ راضی
کیا ہوگا پھر انجام...
غزل
سبھوں کو مے، ہمَیں خُونابِ دِل پلانا تھا
فلک مجھی پہ تجھے کیا یہ زہر کھانا تھا
لگی تھی آگ جگر میں بُجھائی اشکوں نے
اگر یہ اشک نہ ہوتے تو کیا ٹِھکانہ تھا
نِگہ سے اُس کی بچاتا میں کِس طرح دِل کو
ازل سے یہ تو اُسی تِیر کا نِشانہ تھا
نہ کرتا خُوں میں ہمَیں، کِس طرح وہ رنگیں آہ
اُسے تو...
غزلِ
جگر مُراد آبادی
دِل کو کسی کا تابعِ فرماں بنائیے
دُشوارئ حیات کو آساں بنائیے
درماں کو درد، درد کو درماں بنائیے
جس طرح چاہیئے، مجھے حیراں بنائیے
پھر دِل کو محوِ جلوۂ جاناں بنائیے
پھر شامِ غم کو صُبحِ درخشاں بنائیے
پھر کیجئے اُسی رُخِ تاباں سے کسبِ نُور
پھر داغِ دِل کو شمْعِ شبِستاں...