اضطرابِ عاشقی پھر کار فرما ہوگیا
صبر میرا نا شکیبائی سراپا ہوگیا
سادگی ہائے تمنا کے مزے جاتے رہے
ہو گئے مشتاق ہم اور وہ خود آرا ہوگیا
وائے ناکامی نہ سمجھا کون ہے پیشِ نظر
میں کہ حسنِ یار کا محوِ تماشا ہو گیا
بعد مدت کے ملے تو شرم مجھ سے کس لئے
تم نئے کچھ ہو گئے یا میں نرالا ہو گیا
نو...