بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے
یاس عظیم آبادی
پوری غزل
مجھے زندگی میں یارب! سربندگی عطا کر
مرے دل کی بے حسی کو ، غمِ عاشقی عطا کر
ترے درد کی چمک ہو ، تری یاد کی کسک ہو
مرے دل کی دھڑکنوں کو ، نئی بے کلی عطا کر
جو تجھی سے لو لگادے ، جو مجھے میرا پتا دے
میرے عہد کی زباں میں ، مجھے گم رہی عطا کر
میں سفر میں سو نہ جاؤں ، میں یہیں پہ کھو نہ جاؤں
مجھے...
الہٰی! تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں ، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مارڈالا ہے
متاعِ دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹواکر
سکونِ قلب کی پونجی ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر
لٹاکر ساری پونجی غفلت و عصیاں کی دلدل میں...
حرم کی مقدس فضاؤں میں گم ہوں
میں جنت کی ٹھنڈی ہواؤں میں گم ہوں
میں بے گانہ ہوکر ہر اک ماسوا سے
بس اک آشنا کی وفاؤں میں گم ہوں
زبانیں جہاں گنگ ہیں ، لفظ ششدر
تحیر کی ایسی فضاؤں میں گم ہوں
میں کعبے کے بے آب و رنگ پتھروں سے
کرم کی امڈتی گھٹاؤں میں گم ہوں
کبھی سنگِ اسود کی کرنوں سے حیراں
کبھی...
محبت کیا ہے دل کا درد سے معمور ہوجانا
متاعِ جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا
قدم ہے راہِ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی؟
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
یہاں تو سر سے پہلے دل کا سودا شرط ہے یارو!
کوئی آسان ہے کیا سرمد و منصور ہوجانا
بسا لینا کسی کو دل میں دل ہی کا کلیجا ہے
پہاڑوں کو تو بس...
ہم کسی در پے ٹکے اور نہ کہیں دستک دی
سینکڑوں در تھے مری جاں ترے در سے پہلے
چاند سے آنکھ ملی، جی کا اجالا جاگا
ہم کو سو بار ہوئی صبح سحر سے پہلے
ابن انشا