دور کہیں تنہا ایک پرندہ تھا انگشت بدنداں
سوچتا تھا کہ یہ لوگ کیوں ہیں اتنے ناداں
جانتے ہوئے بھی کہ جانا ہے اُس کے پاس
کیوں نہیںآتے یہ بُرے کاموں سے باز
اے حضرتِ انساں تو راہِ راست پر نہیں ہے
جانا ہے کہیں اور تُو کہیںاور ہے
اپنی آنکھیں کھول، سوئے منزل چل
کہ آ رہا ہےترے سامنے ایک نیا کل
: ارفع کریم