غزل
شفیق خلش
یادوں سے سیلِ غم کو ہیں آنکھوں میں روکے ہم
کب بھُولے، زندگی سے محبّت کے بوسے ہم
دیکھیں برستی آگ لبِ نغمہ گو سے ہم
حیراں ہیں گفتگو کو مِلی طرزِ نو سے ہم
سب دوست، آشنا جو تھے ، تاتاری بن گئے
آئے وطن، تو بیٹھے ہیں محبوس ہوکے ہم
اپنی روایتوں کا ، ہمیں پاس کب رہا !
کرتے شُمار...
کہتے ہُوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے ُدردِ تہِ جام بہت ہے
ہوگا کوئی ایسا بھی، کہ غالب کو نہ جانے !
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے
مرزا اسداللہ خاں غالب