بھئی یہ سمجھ اس لیے ایسے آتا ہے کیوں کہ ایسا ہمارے بڑے بوڑھے کہتے ہیں۔ اگر ہم خود کہنا چاہیں تو پھر اپنے انداز ہی میں کہیں گے ناں۔ بھئی بڑے بوڑھوں کی باتوں کی ذمہ داری تو شہری انتظامیہ بھی نہیں لیتی!
ہاں اس کے اندر نفاست یہ ہے کہ وہ اپنے خیال میں صاف کر رہی تھی لیکن عینک تھی کہ مزید دھندلا جاتی تھی۔ اسی خاطر وہ یہ عمل ہر 7 سے 8 سیکنڈ کے بعد تکرار کر رہی تھی!
لو جی۔ ہم جب شعر کے اردے سے کچھ گڑھتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں، بھئی کچھ شعر کہو یہ کیا نثر نثر لکھ رکھا ہے، جب نثر کا گریبان چاک کرتے ہیں تو اندر سے آواز آتی ہے، بھائی شاعری تو نہ کرو۔۔!!
اب بندہِ بیزار کہاں کو جائے۔۔ :D
کیا کہنے پروین شاکر صاحبہ کے۔ واہ بھئی۔
محترم طارق شاہ صاحب، آپ کا بھی بہت شکریہ کہ اس خوبصورت غزل کو آپ نے یہاں اہلیانِ محفل کے ساتھ شریک کیا اور لطف دوبالہ بنا دیا!
ایزی بولنے کا تو کچھ نہیں خیر آپ کے بالوں کی بڑی فکر ہے ۔۔۔ اب تک اس دھاگے میں آپ نے بال توڑ توڑ کا اچھا خاصا کچرا مچا دیا ہے۔۔ ذرا ایک کو بھیج کر جمع کر والیں۔۔۔ ہمارے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ بال پیروں میں آجائیں تو بڑے جھگڑے فسادات ہوا کرتے ہیں!
بھائی میرے، تحریر کے بارے تو تعریف سمجھ آتی ہے۔ پر عشق کا کیا کیجیے کہ "دل تو بچہ ہے جی،۔۔۔"
ہاں اور قلم تو پہلے ہی ٹوٹا ہوا ہے۔ اندازہ تو آپ کو ہو رہا ہوگا کہ آج کل ہم نے غزل کے دامن کو چھوڑ کر نثر کے گریبان میں ہاتھ ڈال رکھا ہے۔