اِدھر بھی خاک اُڑی ہے، اُدھر بھی زخم پڑے
جِدھر سے ہو کے بہاروں کے کارواں نِکلے
سِتم کے دور میں، ہم اہل دل ہی کام آئے
زباں پہ ناز تھا جن کو وہ بے زباں نکلے
ساحرلدھیانوی
سرسلامت ہے تو، کیا سنگِ ملامت کی کمی
جان باقی ہے تو پیکانِ قضا اور بھی ہیں
مُنصفِ شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ اربابِ جفا اور بھی ہیں
ساحرلدھیانوی
اہلِ دل اور بھی ہیں، اہلِ وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں، دُنیا سے خفا اور بھی ہیں
ہم پہ ہی ختم نہیں مسلکِ شورِیدہ سرِی
چاک دل اور بھی ہیں، چاک قبا اور بھی ہیں
ساحر لدھیانوی
غزل
شفیق خلش
ہو دل میں اگر پیار نہ کرنے کا تہیّہ
بہتر نہیں اِس سے کہ ہو مرنے کا تہیّہ
ہوتا ہے ترے وصل کے وعدے پہ مؤخر
وابستہ تِرے فُرق سے مرنے کا تہیّہ
دل خود میں کسی طَور پنپنے نہیں دیتا
کچھ ہٹ کے کبھی عشق سے کرنے کا تہیّہ
گُزری ہے بڑی عمر اِسی حال میں ناصح
کامل نہ مِرا ہوگا سُدھرنے کا...