You are using an out of date browser. It may not display this or other websites correctly.
You should upgrade or use an
alternative browser.
-
باقی ہے کِس کوحوصلہ اخفائے عِشق کا
رُسوا امِیر کوُچہ و بازار ہو چُکا
امیرمینائی
-
اب لب پہ لائیں کیا ارنی صورتِ کلیم
محشر کے روز وعدۂ دِیدار ہو چُکا
امیرمینائی
-
میرا سوال سُن کے جو خاموش ہو رہے
میں خوش ہُوا کہ وصْل کا اِقرار ہو چُکا
امیرمینائی
-
کہِیں ضبطِ فُغاں سے عِشق کے آثار چُھپتے ہیں
لبِ خاموش سے پیدا ہے صدمہ دردِ پِنہاں کا
امیرمینائی
-
نظر آتا ہے دل میں رنگ کیا کیا حُسنِ خُوباں کا
تماشا دیکھتا ہُوں ایک غُنچے میں گُلِستاں کا
امیرمینائی
-
ہوتا نہ اگر دل تو محبّت بھی نہ ہوتی
ہوتی نہ محبت تو کچھ آفت بھی نہ ہوتی
ابراہیم ذوق
-
رات جُوں شمع کٹی ہم کو جو روتے روتے
بہہ گئے اشکوں میں ہم صُبح کے ہوتے ہوتے
ابراہیم ذوق
-
اُلفت کا نشہ جب کوئی مرجائے، تو جائے
یہ درد سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے
ابراہیم ذوق
-
جا ہے اب زیرِ مُغیلاں تِرے دِیوانوں کی
مُدّتوں چھان چُکے خاک بیانوں کی
ابراہیم ذوق
-
منعِ گریہ نہ کر تُو اے ناصح
اِس میں، بے اختیار ہیں ہم بھی
میر تقی میر
-
مصلحت ترکِ عشق ہے ناصح !
لیک ، یہ ہم سے ہو نہیں سکتا
احسن اللہ خان
-
نہیں کھیل ناصح جُنوں کی حقیقت
سمجھ لیجئے گا، تو سمجھائیے گا
جگرمُرادآبادی
-
پُوچھنا حالِ یار ہے مُنظور
میں نے ناصح کا مُدّعا جانا
مومن خاں مومن
-
یہ واقعہ ہے کہ، ناصح کی ضد میں بات بڑھی
جو ایک بار نہ مِلتے، وہ بار بار مِلے
شمیم کرہانی
-
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح سے سامنا
مِل جائے دو گھڑی کو تمھاری نظر مُجھے
جگر مُرادآبادی
-
کِس طرح حرف ہو ناصح کا مؤثر ہم میں
سختیاں کھینچتے ہی دل ہُوا پتھر اپنا
میر تقی میر
-
دل لگی، دل لگی نہیں ناصح !
تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں
داغ دہلوی
-
کیوں نہ میں مُشتاق ناصح کا رہُوں
نام تیرا اُس کے لب پر آئے گا
شادعظیم آبادی
-
ناصح، نصیحتوں کا زمانہ گُزر گیا
اب پیارے صرف تیری دُعا چاہیئے مجھے
خُمار بارہ بنکوی
-
اتنے ناصح مِلے رستے میں کہ، توبہ توبہ
بڑی مشکل سے میں شورِیدہ سروں تک پہنچا
احمد فراز