ہے خِرد کی، عِشق کی دونوں کی ہستی پر نظر !
یہ شہید نغمہ ہے، وہ مُبتلائے ساز ہے
ہوش باقی ہُوں، تو اُس پر کاوشِ بیجا بھی ہو
کیا خبر مُجھ کو، کہ یہ آواز ہے یا ساز ہے
اصغر گونڈوی
آزادیِ نسِیم مُبارک کہ ہر طرف
ٹُوٹے پڑے ہیں حلقۂ دامِ ہَوا سے گُل
جو تھا ، سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مرگیا
اے وائے ، نالۂ لبِ خونیں نوائے گُل !
مرزا اسداللہ خاں غالب