غزل
ظہوراللہ خان نوا
گردش نصیب ہُوں میں اُس چشمِ پُرفسوں کا
دَورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس اِنس سے ہو !
جو اُس کے در پہ بیٹھا ، پھراپنے گھر نہ آیا
خُوبانِ جَور پیشہ گُزرے بہت ہیں، لیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں ، بیداد گر نہ آیا
دیوار سے پٹک کر سر مر گئے ہزاروں...
جو اُس پر حُسن کا عالم ہے ، وہ عالم حُور کہاں پاوے
کہ پردہ منہ سے دُور کرے ، خورشید کو چَکّر آ جاوے
جب ایسا حُسن بھبھوکا ہو، دل تاب بَھلا کیونکر لاوے
وہ مُکھڑا چاند کا ٹُکڑا سا، جو دیکھ پری کو غش آوے
:thumbsup2:
تشکّر شیئر کرنے پر ، فاتح صاحب !
بہت خوش رہیں :):)
حیران ہے زاہد مِری مستانہ ادا سے
سَو راہِ طرِیقت کُھلیں، اِک لغزِشِ پا سے
اِک صُورتِ افتادگئ نقشِ فنا ہُوں
اب راہ سے مطلب، نہ مجھے راہنما سے
میخانہ کی اِک رُوح مجھے کھینچ کے دے دی
کیا کردیا ساقی! نگہِ ہوش رُبا سے
اصغر گونڈوی