بہار آئی
تو جیسے یکبار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے ، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مَر مِٹے تھے
جو مِٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
نِکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مُشک بُو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملالِ احوالِ دوستاں بھی
خُمارِ آغوشِ مہوشاں بھی
غُبارِ خاطر کے...