دھوپ میں ہم جو کھڑے رہتے ہیں
یار سائے میں پڑے رہتے ہیں
اب بھی زندہ نہ ہو تُو مجھ میں کہیں
کان آہٹ پہ کھڑے رہتے ہیں
اُونگھ آئے توبسا لیتا ہوں گھر میں
خواب رستے میں پڑے رہتے ہیں
زخم دشنوں کے تو بھر جاتے ہیں
تیر لہجوں کے گڑے رہتے ہیں
درد خوشیوں سے تصادم کے لیے
دل کی چوکھٹ پہ کھڑے رہتے ہیں
تہمت کا کہیں بغض و رقابت کا درندہ
ہرموڑ پہ بیٹھا ہے جہالت کا درندہ
بچے کئی معصوم نگلتا ہے یہ ہر روز
جو شہر میں پھرتا ہے محبت کا درندہ
ڈرتا ہوں کہیں کھنیچ نہ لے روح بدن سے
تنہائی کے جنگل میں یہ وحشت کا درندہ
جاں بخشے یہی رن میں، یہی جاں لے حرم میں
فطرت میں تو انسان ہے، خصلت کا درندہ
آنکھوں سے...
اب یہ ضد پیار کی رہنے دے
بحث بے کار کی رہنے دے
ہجر کے زنداں کی بات کر
وصل کی دار کی رہنے دے
چھید ہیں عزم کی ناؤ میں
ضدتُو اُس پار کی رہنے دے
پھول بن میں بھی کچھ کھلتے ہیں
بات بس خار کی رہنے دے
تُو مری فکر کی بات کر
بات کردار کی رہنے دے
ایک غزل کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔ اساتذہ سے اصلاح کی درخواست ہے۔
میں نے خوشبو یوں نشانی کی ہے
چند کلیوں کی نگہبانی کی ہے
زخم جاڑے میں ہیں مہکے اب کے
رُت دسمبر میں سہانی کی ہے
وصف لایا ہے زمیں پر یہ مجھے
میں نے دل میں جو بھی ٹھانی، کی ہے
درد تیرا تو ہے کھلتا دن میں
رات کی یاد میں نے رانی کی...
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
کچھ اشعار پیش خدمت ہیں احباب سے اصلاح کی درخواست ہے۔
دشمن تو مرے ہیں سرِبازار مخالف
احباب ہیں لیکن پسِ دیوار مخالف
لگتا ہے کہ میرا قدوقامت نکل آیا
میرے بھی ہیں اب شہر میں دوچار مخالف
حق اُس کو امیری کا نہیں شہر کی ہرگز
جس شخص کے ہوں بے کس و لاچار مخالف
اُس پار ہیں...
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
ایک نظم احباب محفل کی نذر
اصلاح کی گزارش ہے۔
لفظوں کی برسات بھی دیکھی
یخ بستہ خاموشی دیکھی
خوابوں کی گر پت جڑ دیکھی
جذبوں کی دیکھی گرمی بھی
میں نے سال کے سارے موسم
دیکھے تیرے پیار میں جاناں
روشن دن امید کا دیکھا
دیکھی شب کی مایوسی بھی
سوچ کی ڈھلتی شام بھی دیکھی
صبح نئی...
حقیقت سے پردہ اٹھانے لگا ہوں
خودی بیچ کر اب کمانے لگا ہوں
حقیقت بتائوں، حقیقت یہی ہے
حقیقت سبھی سے چھپانے لگا ہوں
تکبر لٹا دے نہ دولت ہنر کی
سو شاگرد سے مات کھانے لگا ہوں
تلاطم میں فن کے، پھنسا اس طرح سے
نہ ڈوبا ،نہ ہی میں ٹھکانے لگا ہوں
وہ روٹی، وہ کپڑا، مکاں وہ کہاں ہے
میں آئینہ شہ کو...
الجھا ہے جو انکار سے اقرار مسلسل
اک حشر بپا ہے پسِ دیوار مسلسل
کانٹے ہیں یہاں پھول سے بے زار مسلسل
مجھ سے ہیں خفا میرے سبھی یار مسلسل
جب زخم مری پشت پہ آیا تو میں سمجھا
لڑتا رہا دشمن سے میں بے کار مسلسل
بنیاد جو نفرت کی کبھی اٌس نے تھی رکھی
میں اٌس پہ اٌٹھاتا رہا دیوار مسلسل
بازار میں اب...