نالہ دل میں شب، اندازﹺ اثر نایاب تھا
تھا سپندﹺ بزمﹺ وصلﹺ غیر گو بے تاب تھا
مقدمﹶ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانہ عاشق مگر سازﹺ صدائے آب تھا
نازشﹺ ایّام خاکستر نشینی، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ، وقفﹺ بسترﹺ سنجاب تھا
کچھ نہ کی، اپنے جنونﹺ نارسا نے، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ، رﹸوکشﹺ خورشیدﹺ عالم تاب...