نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    529 چاک پر چاک ہوا، جوں جوں سلایا ہم نے اس گریباں ہی سے اب ہاتھ اُٹھایا ہم نے حسرتِ لطفِ عزیزانِ چمن جی میں رہی سر پہ دیکھا نہ گُل و سرو کا سایا ہم نے جی میں تھا عرش پہ جا باندھیے تکیہ، لیکن بسترا خاک ہی میں اب تو بچھایا ہم نے بعد یک عمر کہیں تم کو جو تنہا پایا ڈرتے ڈرتے ہی کچھ...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    528 بے تابیوں میں تنگ ہم آئے ہیں جان سے وقتِ شکیب خوش کہ گیا درمیان سے ہم خامشوں کا ذکر تھا شب اُس کی بزم میں نکلا نہ حرفِ خیرکسو کی زبان سے آبِ خضر سے بھی نہ گئی سوزشِ جگر کیا جانیے یہ آگ ہے کس دودمان سے آنے کا اس چمن میں سبب بے کلی ہوئی جوں برق ہم تڑپ کےگرے آشیان سے اب چھیڑ یہ...
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    527 جس جگہ دورِ جام ہوتا ہے واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون کیسا خط و پیام ہوتا ہے تیغ ناکاموں پر نہ ہر دم کھینچ اک کرشمے میں کام ہوتا ہے پوچھ مت آہ ، عاشقوں کی معاش روز اُن کا بھی شام ہوتا ہے زخم بِن ، غم بِن اور غصے بِن اپنا کھانا حرام ہوتا ہے میر صاحب...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    526 خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے غم زدوں، اندوہ گینوں، ظلم کے ماروں میں تھے دشمنی جانی ہے اب تو ہم سے غیروں کے لیے اک سماں سا ہوگیا وہ بھی کہ ہم یاروں میں تھے مت تبختر سے گزر قُمری ہماری خاک پر ہم بھی اک سروِ رواں کے ناز برداروں میں تھے مر گئے لیکن نہ دیکھا تُو نے اودھر...
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    525 عالم مری تقلید سے خواش تری کرنے لگا ہیں تو پشیماں ہوچکا، لوگوں کو اب ارمان ہے ہر لحظہ خنجر درمیاں، ہر دم زباں زیرِ زباں وہ طور وہ اسلوب ہے، یہ عہد یہ پیمان ہے اس آرزوئے وصل نے، مشکل کیا جینا مرا ورنہ گزرنا جان سے اتنا نہیں آسان ہے بس بے وقاری ہوچکی، گلیوں میں خواری ہو چکی اب...
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    524 فقیرانہ آئے صدا کرچلے میاں ، خوش رہو ہم دعا کر چلے جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی کہ مقدور تک تو دوا کر چلے وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ سو تم ہم سے منھ بھی چُھپا...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    523 آج تیری گلی سے ظالم میر لوہو میں شور بور آیا ہے
  8. وہاب اعجاز خان

    پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا (قیامت سے قیامت تک)

    جواب اس وقت ہم دوسری کلاس میں پڑھتے تھے۔ اردو سے مکمل طور پر نابلد لیکن پھر بھی یہ گانے ہم غلط سلط گنگنایا کرتے تھے۔ فلم اس دور میں دیکھ کر بہت پسند آئی تھی۔ حالانکہ پیار محبت کا نام تک ہم لوگ نہیں‌جانتے تھے۔ فلم کا ایک اور گانا ابھی بھی جب گنگناتا ہوں تو مجھے سکول کے پرانے دوست یاد آجاتے ہیں۔...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    522 خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہوگیا ہے ملک اِن ستم ذدوں کا سب پاک ہوگیا ہے جس سے اس لگاؤں روکھا ہی ہو ملے ہے سینے میں جل کر ازبس دل خاک ہوگیا ہے کیا جانوں لذتِ درد اُس کی جراحتوں کی یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہوگیا ہے زیرِ فلک بھلا تُو رووے ہے آپ کو میر کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو...
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    521 جاں گداز اتنی کہاں آوازِ عود و چنک ہے دل کے سے نالوں کا ان پردوں میں کچھ آہنگ ہے بیستوں کھودے سے کیا آخر ہوئے سب کارِ عشق بعد ازاں اے کوہ کن سر ہے ترا اور سنگ ہے آہ ان خوش قامتوں کو کیوں کے بر میں لائیے جن کے ہاتھوں سے قیامت پر بھی عرصہ تنگ ہے چشمِ کم سے یکھ مت قُمری تُو اُس...
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے جو ہے، سو کوئی دم کو فیصل ہے چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر آج جو کچھ ہے، سو کہاں کل ہے ٹک گریباں میں سر کو ڈال کےدیکھ دل بھی کیا لق و دق جنگل ہے مر گیا کوہ کن اسی غم میں آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ہے
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    519 دل کو مت بھول جانا میرے بعد مجھ سے یہ یادگار رہتا ہے دور میں چشمِ مست کے تیری فتنہ بھی ہوشیار رہتا ہے ہر گھڑی رنجش ایسی باتوں میں کوئی اخلاص و پیار رہتا ہے تجھ بِن آئے ہیں تنگ جینے سے مرنے کا انتظار رہتا ہے کیوں نہ ہووے عزیز دل ہا میر کس کے کوچے میں خوار رہتا ہے
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    518 چل قلم ، غم کی رقم کوئی حکایت کیجے ہر سرِ حرف پہ فریاد نہایت کیجے کس کے کہنے کو ہے تاثیر کہ اک میر ہی سے رمز و ایما و اشارات و کنایت کیجے
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    517 پہنچا نہیں کیا سمعِ مبارک میں مرا حال یہ قصہ تو اِس شہر میں مشہور ہوا ہے بے خوابی تری آنکھوں پہ دیکھوں ہوں مگر رات افسانہ مرے حال کا مذکور ہوا ہے اے رشکِ سحر بزم میں لے منھ پہ نقاب اب اک شمع کا چہرہ ہے سو بے نور ہوا ہے
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    516 کم فرصتی گُل جو کہیں کوئی نہ مانے ایسے گئے ایامِ بہاراں کہ نہ جانے ہمراہِ جوانی گئے ہنگامے اُٹھانے اب ہم بھی نہیں وے رہے، نَے وے ہیں زمانے ٹک آنکھ بھی کھولی نہ ز خود رفتہ نے ان کے ہر چند کیا شور، قیامت نے سرھانے لوہے کے توے ہیں جگرِ اہلِ محبت رہتے ہیں تیرے تیرِ ستم ہی کے نشانے...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    515 نہیں وسواس جی گنوانے کے ہائے رے ذوق دل لگانے کے میرے تغییرِ حال پر مت جا اتفاقات ہیں زمانے کے دمِ آخر ہی کیا نہ آنا تھا اور بھی وقت تھے بہانے کے اس کدورت کوہم سمجھتے ہیں ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب بندے ہیں اپنے جی چلانے کے چشمِ نجم سہپر جھپکے...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    514 منصف جو تُو ہے، کب تئیں یہ دکھ اُٹھائیے کیا کیجے میری جان، اگر مر نہ جائیے تم نے جو اپنے دل سے بھلایا ہمیں تو کیا اپنے تئیں تو دل سے ہمارے بُھلائیے فکرِ معاش یعنی غمِ زیست تا بہ کے مر جائیے کہیں کہ ٹک آرام پائیے جاتے ہیں کیسی کیسی لیے دل میں حسرتیں ٹک دیکھنے کو جان بہ لبوں کے...
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    513 کچھ تو کہہ، وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے رہ گئے گاہ تبسم پہ، گہے بات ہی پر بارے اے ہم نشیں اوقات چلی جاتی ہے یاں تو آتی نہیں شطرنجِ زمانہ کی چال اور واں بازی ہوئی مات چلی جاتی ہے روز آنے پہ نہیں نسبتِ عشقی موقوف عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے...
  19. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    512 کب تلک جی رکے، خفا ہووے آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے کاہشِ دل کی کیجیے تدبیر جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے چپ کا باعث ہے بے تمنائی کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم دیکھیے اب کے سال کیا ہووے مر گئے ہم تو مر گئے...
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    511 مرے اس رک کے مرجانے سے وہ غافل ہے کیا جانے گزرنا جان سے آساں بہت مشکل ہے کیا جانے طرف ہونا مرا مشکل ہے میر اس شعر کے فن میں یونہی سودا کبھو ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے
Top