نتائج تلاش

  1. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    489 جہاں میں روز ہے آشوب اُس کی قامت سے اُٹھے ہے فتنہ ہر اک شوخ تر قیامت سے مُوا ہوں ہو کے دل افسردہ رنجِ کلفت سے اُگے ہے سبزہء پژ مردہ میری تُربت سے تسلی اُن نے نہ کی ایک دو سخن سے کبھو جو کوئی بات کہی بھی تو آدھی لکنت ہے امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور کہ ہم فقیر ہوئے ہیں...
  2. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    488 عاشق کہیں جو ہو گے تو جانو گے قدر میر اب تو کسی کو چاہنے کا تم کو چاؤ ہے
  3. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    487 صید افگنوں سے ملنے کی تدبیر کریں گے اس دل کے تئیں پیش کشِ تیر کریں گے فریادِ اسیرانِ محبت نہیں بے ہیچ یہ نالے کسو دل میں بھی تاثیر کریں گے دیوانگی کی شورشیں دکھلائیں گے بلبل آتی ہے بہار اب ہمیں زنجیر کریں گے رُسوائیِ عاشق سے تسلی نہیں خوباں مرجاوے گا تو نعش کو تشہیر کریں گے...
  4. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    486 حصول کام کا دل خواہ یاں ہوا بھی ہے سماجت اتنی بھی سب سے، کوئی خدا بھی ہے مُوئے ہی جاتے ہیں ہم دردِ عشق سے یارو کسو کے پاس اِس آزار کی دوا بھی ہے! اُداسیاں تھیں مری خانقہ میں قابلِ سیر صنم کدے میں تو ٹک آکے دل لگا بھی ہے یہ کہیے کیوں کے کہ خوباں سے کچھ نہیں مطلب لگے جو پھرتے ہیں...
  5. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    485 اچھنبھا ہے، اگر چپکا رہوں مجھ پر عتاب آوے وگر قصہ کہوں اپنا تو سنتے اس کو خواب آوے بغل پروردہء طوفاں ہوں میں ، یہ موج ہے میری بیاباں میں اگر روؤں تو شہروں میں بھی آب آوے
  6. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    484 کہاں تک غیر، جاسوسی کے لینے کو لگا آوے الٰہی اس بلائے ناگہاں پر بھی بلا آوے تر آنا ہی اب مرکوز ہے ہم کو دمِ آخر یہ جی صدقے کیا تھا پھر نہ آوے تن میں یا آوے اسیری نے چمن سے میری دل گرمی کو دھو ڈالا وگرنہ برق جا کر آشیاں میرا جلا آوے بہ رنگِ بوئے غنچہ ، عمر اک ہی رنگ میں گزرے...
  7. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    483 تمام اُس کے قد میں سناں کی طرح ہے رنگیلی نپٹ اُس جواں کی طرح ہے (ق) اُڑی خاک گاہے، رہی گاہ ویراں خراب و پریشاں یہاں کی طرح ہے تعلق کرو میر اس پر جو چاہو مری جان یہ کچھ جہاں کی طرح ہے
  8. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    482 جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے اکثر ہمارے ساتھ کے بیمار مر گئے صد کارواں وفا ہے کوئی پوچھتا نہیں گویا متاعِ دل کے خریدار مر گئے افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں لگتے ہی اس کے ہاتھ کی تلوار مر گئے تجھ سے دُچار ہونے کی حسرت کے مبتلا جب جی ہوئے وبال تو ناچار مر گئے گھبرا...
  9. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    481 یعقوب کے نہ کلبہء احزاں تلک گئے سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے بارے نسیم صعف سے کل ہم اسیر بھی سناہٹے میں جی کے گلستاں تلک گئے کو موسمِ شباب، کہاں گُل، کسے دماغ بلبل وہ چہچہے اُنھیں یاراں تلک گئے کچھ آبلے دیے تھے رہ آوردِ عشق نے سو رفتہ رفتہ خرِ مغیلاں تلک گئے پھاڑا تھا جیب...
  10. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    480 رات گزری ہے مجھے نزع میں روتے روتے آنکھیں پھر جائیں گی اب صبح کے ہوتے ہوتے کھول کر آنکھ اُڑا دید جہاں کا غافل خواب ہو جائے گا پھر جاگنا سوتے سوتے جم گیا خوں کفِ قاتل پہ ترا میر زبس اُن نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے
  11. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    479 جب تک کہ ترا گزر نہ ہووے جلوہ مری گور پر نہ ہووے رونے کی ہے جاگہ آہ کریے پھر دل میں ترے اثر نہ ہووے بیمار رہے ہیں اُس کی آنکھیں دیکھو کسو کی نظر نہ ہووے کربے خبر اک نگہ سے ساقی لیکن کسو کو خبر نہ ہووے رکھ دیکھ کے راہِ عشق میں پا یاں میر کسو کا سر نہ ہووے
  12. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    478 تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے میں کشتہ ہوں اندازِ قاتل کا اپنے نہ پوچھو کہ احوال ناگفتہ بہ ہے مصیبت کے مارے ہوئے دل کا اپنے دلِ زخم خوردہ کے اور اک لگائی مدوا کیا خوب گھائل کا اپنے بِنائیں رکھیں میں نے عالم میں کیا کیا ہوں بندہ خیالات باطل کا اپنے
  13. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    477 طاقت نہیں ہے دل میں، نَے جی بجا رہا ہے کیا ناز کر رہے ہو، اب ہم میں کیا رہا ہے جیب اور آستیں سے رونے کا کام گزرا سارا نچوڑ اب تو دامن پر آرہا ہے کاہے کا پاس اب تو رسوائی دُور پہنچی رازِ محبت اپنا کس سے چھپا رہا ہے وے لطف کی نگاہیں پہلے فریب ہیں سب کس سے وہ بے مروت پھر آشنا رہا...
  14. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    476 آہ جس وقت سر اُٹھاتی ہے عرش پر برچھیاں چلاتی ہیں ناز بردارِ لب ہے جاں جب سے تیرے خط کی خبر کو پاتی ہے اے شبِ ہجر راست کہہ تجھ کو بات کچھ صبح کی بھی آتی ہے چشمِ بد دُور چشمِ تر اے میر آنکھیں طوفان کو دکھاتی ہیں
  15. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    475 ہم نے جانا تھا سخن ہوں گے زباں پر کتنے پرقلم ہاتھ جو آئی ، لکھے دفتر کتنے میں نے اُس قطعہء صناع سے سر کھینچا کہ ہر اک کوچے میں جس کے تھے ہنرور کتنے آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوسِ سیرِ بہار آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پر کتنے تُو ہے بے چارہ گدا میر، ترا کیا مذکور مل گئے خاک میں یاں...
  16. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    474 غالب کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مرجائے یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے یہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود ، نہ کعبہ جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے یاقوت کوئی ان کو کہے ہے، کوئی گُل برگ ٹک ہونٹ ہلا تُو بھی کہ اب بات ٹھہر جائے مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں نالہ کسو مظلوم کا...
  17. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    473 مہ وشاں پوچھیں نہ ٹک ہجراں میں گر مر جائیے اب کہو! اس شہرِ ناپرساں سے کیدھر جائیے شوق تھا جو یار کے کُوچے ہمیں لایا تھا میر پاؤں میں طاقت کہاں اتنی کہ اب گھر جائیے
  18. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    472 قبرِ عاشق پر مقرر روز آنا کیجیے جوگیا ہو جان سے اُس کو بھی جانا کیجیے رات دارو پیجیے غیروں میں بے لیت و لعل یاں سحر سر دُکھنے کا ہم سے بہانا کیجیے ٹک تمہارے ہونٹ کے ہلنے سے یاں ہوتا ہے کام اتنی اُتنی بات جو ہووے تو مانا کیجیے سیکھیے غیروں کے ہاں چھپ چھپ کے علم تِیر پھر سارے...
  19. وہاب اعجاز خان

    شعر جو ضرب المثل بنے

    میر کا کہنا ہے میر عمداَ َ بھی کوئی مرتا ہے جان ہے تو جہان ہے پیارے
  20. وہاب اعجاز خان

    انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

    471 زخموں پہ زخم جھیلے، داغوں پہ داغ کھائے یک قطرہ خونِ دل نے کیا کیا ستم اُٹھائے اُس کی طرف کو ہم نے جب نامہ بر چلا ئے اُن کا نشاں نہ پایا، خط راہ میں سے پائے خوں بستہ جب تلک تھیں دریا رُکے کھڑے تھے آنسو گرے کروڑوں، پلکوں کے ٹک ہلائے بڑھتیں نہیں پلک سے تا ہم تلک بھی پہنچیں پھرتی...
Top