نایاب
لائبریرین
میں نے سو چا آج ایک نئے موضو ع پہ گپ شپ کی جائے۔۔
تو میرا سوال یا آپ کہہ لیں کہ موضوع یہ ہے کہ زند گی کے متعلق اپنی را ئے ایک جملے میں بیان کریں۔
ہر انسا ن کی زند گی کا کوئی نا کو ئی مقصد ہوتا ہے ۔۔ پر کچھ لوگو ں اپنی زند گی کو بے مقصد ہی لئے پھر تے ہیں ۔۔
تو آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟؟ اور اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟
آپ نے کیسے جینا سیکھا؟؟
زندگی کا مقصد ؟
سوال بہت پرت دار ہے ۔
پہلی نگاہ میں بہت آسان ہے اس کا جواب
اور ذرا غور کیا جائے تو
زندگی گزر بھی جاتی ہے اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے ۔
مگر جواب ہاتھ نہیں آتا ۔
زندگی کا مقصد تو جب سمجھ میں آتا ہے ۔ جب ہم اس زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیں
کہ آخر یہ لفظ " زندگی " ہے کیا ؟
ہم جب اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کی آگہی ملتی ہے کہ
ہمارے گردوپیش میں موجود ہر چیز کسی نہ کسی مقصد کیلئے پیدا کی گئی ہے
زمین سے اگنے والی ننھی سرسبز کونپلوں سے لیکر
آسمان پر موجود آگ برساتا سورج تک اپنی حرکت سے یہ حقیقت بیان کرتا ہے کہ
یہ حرکت کسی نہ کسی مقصد کے ساتھ منسلک ہے۔
اور یہ حرکت ہی زندگی ہے ۔
اور جب حرکت رک جاتی ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے ۔
اس کائنات میں یہ " حرکت ""زندگی " کہاں سے آئی ؟
اس "حرکت "" زندگی " کا منبع کہاں ہے ۔ ؟
انسان نے اس بارے غوروفکر کیا اور اس زندگی کی حقیقت کو " تخلیق " کا نام دیتے
ان متحرک اشیاء کو " مخلوق " کا نام دیا ۔ اور یہ مخلوق جب اپنے " خالق " سے آگاہ ہو گئی
تو اس مخلوق نے اپنی تخلیق یا زندگی کا مقصد تلاشنا شروع کیا ۔
اس مقصد زندگی کی تلاش میں تین طرح کی مخلوق سامنے آئی ۔
ایک وہ جن کےپاس عقل ہے مگر نفس یعنی خواہش نہیں ۔فرشتے ان میں شامل ہیں
ایک وہ جو کہ نفس کے تو حامل ہیں مگر عقل نہیں رکھتے حیونات ان میں شامل ہیں ۔
ایک وہ جو کہ عقل بھی رکھتے ہیں اور نفس کے بھی حامل ہیں ۔ جن و انس ان میں شامل ہیں ۔
خالق حقیقی نے ان تینوں کی " مقصدیت " جدا جدا رکھی ۔
فرشتوں کو خواہش نفس سے پاک رکھتے اپنی عبادت کے لیئے خاص کر لیا ۔ حیوانات کو عقل سے محروم رکھتے خواہش نفس کی پیروی میں الجھاتے افزائیش نسل میں مصروف کردیا ۔
مگر جن و انس کو ہمہ صفت عقل و نفس سے نواز تے اک ایسے امتحان میں مبتلا کر دیا ۔
جس میں کامیابی جن و انس کو فرشتوں کا ہم نشین بناتی ہے ۔ اور ناکامی جانور کی صف میں کھڑا کر دیتی ہے ۔
انسان جب اس امتحان کے نصاب کے لیئے تلاش میں نکلتا ہے ۔
تو اس کا سامنا ان چار عظیم کتابوں (زبور توریت انجیل قران پاک )سے ہوتا ہے ۔
یہ چاروں کتابیں اپنی اپنی جگہ "آئین انسانیت " کا درجہ رکھتی ہیں ۔
اور ان سب کا پیغام "توحید و انس " ہے ۔
یہ عظیم کتابیں انسان کو زندگی کے مقصد کے نصاب سے آگاہ کرتی ہیں ۔
کہ خالق نے اپنی صفات کا مظہر انسان کو بنا یا ہے تاکہ انسان وہی عمل کرے جس سے خالق کے رحم و کرم، بخشش و عنایت، جود و سخا، عفوو درگزر، حلم و مروت، کرم فرمائی اور چشم پوشی جیسی صفات کی یاد تازہ ہوتی رہے۔جب ایک انسان ان صفات کے ہمراہ کسی کی مدد کر دیتا ہے، کسی کے کام آ جاتا ہے، کسی مظلوم کا ظلم دور کر دیتا ہے۔ کسی مفلس کے افلاس کا علاج کر دیتا ہے، تو وہ اس نصاب زندگی سےآگاہ ہوجاتا ہے ۔ اپنی زندگی کے مقصد کا پا لیتا ہے ۔ کہ زندگی کا مقصد حقیقی ہے اوروں کے کام آنا ۔
اب جہاں تک سوال ہے کہ
تو آپ کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟؟ اور اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟
آپ نے کیسے جینا سیکھا؟؟
تو اس شعر میں اس کا جواب مکمل کاملیت سے موجود ہے ۔
خدا کے عاشق تو ہيں ہزاروں ، بنوں ميں پھرتے ہيں مارے مارے
ميں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پيار ہو گا
میری زندگی کا مقصد " اتباع اسوہ حسنہ " ہے ۔ اور اسی کو سمجھ کر جیتا ہوں ۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو دوسروں کو آسانیاں فراہم کرنے کی توفیق سے نوازے ۔ آمین