فونٹ کے خالقین نابالغ ہی سہی لیکن انہی کی جانب سے اس تنقیدی دھاگے کا آغاز بھی کیا گیا۔ اور "اس عاصی" کے مراسلہ سے پہلے بہت ساری تنقید وجود میں آچکی ہے اور فونٹ کے خالقین نے نابالغ ہونے کے باوجود اسے خندہ پیشانی سے سنا بھی ان کی روشنی میں ساتھ ہی ساتھ اصلاح کرکے انتہائی گرم جوشی سےاطلاعات بھی فراہم کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ اگلی ریلیز میں آپ کو یہ خامیاں نہیں ملیں گی فونٹ کے خالقین اس پات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مثبت تنقید ہی تعمیر کا واحد راستہ ہوا کرتا ہے۔
پھر اچانک نہ جانے فونٹ کے خالقین کو کیا ہوا کہ صرف "اس عاصی" کی "مثبت تنقید" پر بگڑ گئے۔ فونٹ کے خالقین "اس عاصی" کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے مراسلہ کے مندرجات پر غور کریں ۔ اور فونٹ کے خالقین کے مراسلوں کو بھی دوبارہ دیکھیں "اس عاصی " کو معلوم ہو جائے گا کہ فونٹ کے خالقین نے تنقید کے سلسلہ میں کسی بچگانہ حرکت کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ"اس عاصی" کی صرف اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ
فونٹ کو ابھی ریلیز نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ چونکہ فونٹ کے خالقین کے پاس انکی زندگی کی کوئی گارنٹی موجود نہ تھی اس لیے فونٹ کے خالقین نے بار امانت سے خود کو سبک دوش کرنا پسند کیا لیکن "اس عاصی" کی جانب سے تو انہیں بار ندامت تلے دبایا جا رہا ہے۔ ویسے یہ عاصی یعنی(راقم الحروف) یہ سمجھتا ہے کہ منتظم ہونے کے ناتے "اس عاصی" کو اپنا رویہ نرم رکھنا چاہیئے۔محترم نبیل نے تو (راقم الحروف) سے ایسا کوئی رویہ نہیں رکھاانہوں نے تو ہمیشہ حوصلہ افزا بات کی ہے۔
اگر کسی نے خطائے اجتہادی کرتے ہوئے یہ پوچھ ہی لیا تھا کہ فونٹ کو کب محفل پر اپلائی کیا جا رہا ہے تو اس کا سیدھا سادھا جواب یہی تھا:
"کہ ابھی یہ آزمائشی نسخہ ہے کسی مستحکم ریلیز کے بعد ہی ایسا ممکن ہوگا" اس میں ریلیز کے عمل کو لیٹ کرنے اور تاسف کا اظہار کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی اس لیے کہتے ہیں ناں مختصر گوئی میں بہت سی مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ جیسا کہ خود فونٹ کے خالقین نے ایک مطالبہ:
"م بلال اس فانٹ کو اپنے انسٹالر میں شامل کریں "
پر فوری رد عمل دیتے ہوئے اس بات سے منع کر دیا جواب دیا ہے کہ:
"یہ نسخہ آزمائشی ہے اس آزمائشی نسخہ کو انسٹالر میں شامل نہیں کیا جانا چاہیئے جب تک اس کی مستحکم ریلیز نہ ہو جائے"
کیا یہ جواب بھی "اس عاصی" کی نظر میں فونٹ کے خالقین کی عدم بلوغت کا اظہاریہ ہے ۔۔ ہمیں دکھ ہوا کہ ہماری پیری کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور ہم پر مسکراتے ہوئے جملے کسے جا رہے ہیں۔ صرف ایک مسکراتے ہوئے کاکے
کی تصویر لگا کر کسی کو بہلایا نہیں جا سکتا۔ ہم لفظ گر لوگ ہیں الفاظ میں چھپے ہوئے طنز کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اور ہم نے اتنی ہی شدت سے اس طنز کو محسوس کیا ہے جتنی شدت سے آپ نے اسے ہم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال۔ ہم نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود آپ کو اپنا بزرگ تسلیم کر لیا۔ حضور واقعی ہم سے خطا ہوئی۔ ہمیں یہ ریلیز دو چار سال مزید موخر کرنا چاہیئے تھی۔ اب معاف فرما دیجئے۔