F@rzana
محفلین
فرزانہ سچ پوچھیں تو مجھے یہ فیصلہ کرنا ہی مشکل تھا کہ کون یہاں اہم ہے اور کون نہیں۔۔۔ماشاءاللہ سب لوگ اپنی جگہ نگینے کی طرح فٹ ہیں۔۔اس لیے میں نے سوچا کہ ان سے بات کرنے میں زیادہ اچھا ہے جو آج کل زیادہ آنلائن نظر آرہے ہیں۔
بیشک سب لوگ نگینے کی مانند فٹ ہیں لیکن انگوٹھیاں تو ساری انگلیوں میں پہنی جاسکتی ہیں نا، کئی نگینے ہوجائیں تو کیا قباحت ہے،
اچھا مذاق برطرف۔ ۔۔
ذرا''باجو'' اور ''شگفتہ'' نام کی انگوٹھیاں تو بنائیں'جلدی سے'
‘‘ہمممم یعنی کسی حال میں خود کو اکیلا نہیں چھوڑنا‘‘
یہ تو آپ نے اکدم وہ بات کہدی جو سب گھر والے کہتے ہیں
لیکن اس میں میرا قصور نہیں، شاید یہ میری جینز میں ہے، کیونکہ میری ممی بھی ایسی ہی تھیں۔
‘‘لگا جیسے یہ میں نے لکھا ہو ۔۔۔ میری لڑائی منہ سے نہیں پنجوں سے آئی مین ہاتھوں سے ہوتی ہے ۔۔۔ کیا آپ نے کبھی ان بھائی صاحب پر اپنے ہاتھوں کا استعمال کیا۔۔؟
نیناں یہ پڑھ کر مجھے ایک سوال پوچھنے کا خیال آیا۔۔۔
ہ آپ کی نظر میں دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ÷تعلق۔۔؟؟؟
ہ کیا بھائی سے تعلقات اب بھی ویسے ہیں یا نہیں۔۔؟‘‘
امن، اگر میں آپ کو اپنی کارستانیاں بتانا شروع کردوں تو ''مار دھاڑ'' سے بھرپور فلم دکھانے کا الزام لگ جائے گا،
انسان اپنے بارے میں متعصب تو ہوتا ہی ہے لیکن اس تعصب کو غیر فطری نہیں ہونا چاہیئے، آپ نے مجھے انکشاف ذات پر مجبور کر ہی لیا ہے تو اپنے بارے میں ایمانداری سے بتاؤں گی، ضروری نہیں کہ آپ ان انکشافات کو معقول بھی سمجھیں، خاصی پارہ فطرت تھی میں۔ ۔ ۔
ہمارے پڑوس والے گھر کے آم کے پیڑ سے کیریاں توڑنی تھیں، چھت کی دیوار کے کنارے
پر پاؤں رکھا اور کود گئی مزے سے کچھ کیریاںادہر اڑسیں کچھ ادہر اڑس لیں اور کچھ اپنی سہیلی کو ''باجو نہیں'' یہ دوسری سہیلی تھی نیچے پھینکتی گئی واپس چھجے سے کود کر جیسے ہی گھر کی چھت پر پہنچی کسی کے اوپر آتے قدموں کی چاپ سنائی دی، میں نے جلدی سے اوپر والے کمرے کی بیڈ کے نیچے پناہ لی، بھائی صاحب کی صورت شامت اوپر آچکی تھی،
انہوں نے کہا کہ فورا باہر نکلو، میں انکاری بھائی صاحب بضد اور میں نکل کے نہ دوں، خیر نکلنا تو پڑا لیکن کیریاں جہاں جہاں چھپائیں تھیں وہ مارا ماری میں نکلیں تو پھر ہینڈگرینیڈ کی ضرورت نہیں پیش آئی جو درگت بنی اس کا حال مت پوچھیں،
اپنی کیریاں سنبھال کرسہیلی کہاں پر لگا کر اڑگئی اس کا مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ ۔ ۔
یہیں کسی دھاگے میں، میں نے محلے کے ایک لڑکے سے کنچے کھیلتے ہوئے بے ایمانی پر اس کی آنکھ پھوڑنے کا واقعہ لکھا ہے اور اس کی طرح کی کئی کہانیاں ہیں لیکن بھائی صاحب نے اس بات پر جو لیکچر دیا تھااور خبر لی تھی وہ آج بھی یاد ہے۔
الحمد للہ کہ بھائی سے تعلق ویسا ہی بلکہ دوری کی وجہ سے جذباتی طور پر اور بھی زیادہ مضبوط ہے، میں جب کراچی میں ان کے یہاں جاؤں تو باتیں ختم ہی نہیں ہوتیں رات سے صبح ہوجاتی ہے۔
دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ 'ماں'
اس بارے لکھنے پر ابھی مت اکسائیے ورنہ سلسلہ کئی روز تک جا پہنچے گا
آپ کو ایک تنبیہہ' اس طرح کی میٹھی نیند'' سونے والی بات کبھی مت کیجئے گا۔
ہ نیناں کیا آپ شاعری تبھی لکھتی ہیں جب فراغت میسر آئے ؟
شعر لکھنا اصل میں فن یا ہنر سے زیادہ ایک مزاجی کیفیت ہے، کبھی کبھار بیحد شوروغل اور ہنگامے میں بھی مسلسل آمد ہوئی ہے اور کبھی پرسکون سناٹے و بے انتہا تنہائی کے لمحے میسر ہونے کے باوجود کچھ نہیں لکھا جاتا۔
فطرت مجھ پر بہت اثر انداز ہوتی ہے،''بورن نیچرلسٹ'' ہوں، کسی حسین منظر کی دلکشی تصوراتی منظر میں لے جائے تو میں لکھنے کو بیقرار ہوجاتی ہوں بلکہ یہ کہیئے کہ کام کے ساتھ ساتھ لکھ رہی ہوتی ہوں،
چاند پر ایک بہت رومانٹک غزل ''ڈینٹسٹ'' کے ویٹنگ روم میں انتظار کرتے کرتے لکھی تھی۔
''دریائےنیل'' والی نظم بچوں کی ایمینیشن مووی '' پرنس آف ایجپٹ'' دیکھتے ہوئے لکھی تھی۔
کراچی کے ''سی ویو'' پر اپنی کزنز اور بھابھیوں کے ساتھ ٹہلتے ہوئے جو لکھا اسے یہاں نقل کر نے سے پہلے یہ بتادوں کہ اس رات پورا چاند تھا اس کے گرد بڑا سا روشن ہالہ مجھ سے تنہائی کا تقاضہ کر رہا تھا، لہریں لگتا تھا چاندی سے بنی ہوئی ہیں،
ارد گرد شرارتیوں کا ٹولہ تھا جن کی باتیں دوڑ دوڑ کر پاؤں چھوتی ہوئی لہروں سے سبقت لیجانے کے لئے تواتر سے چھینٹے اڑانے میں مشغول تھیں،ویسے بھی میں جب جاتی ہوں تو سبھی مکمل توجہ دیتے ہیں لہذا ہاتھ جوڑ کر ان سے کہنا پڑا کہ خدا کے لیئے مجھے تھوڑی دیر کے لیئے اپنے آپ سے دور اکیلے چلنے دو۔
کیا کیا جواب ملے، کتنی چوکیداری ہوئی یہ کہانی پھر سہی، پہلے وہ غزل ملاحظہ کیجئے۔
بے خبر، میں نے سمندر سے بہت باتیں کیں
یاد کے ساتھ اکیلے ہی بہت راتیں کیں
ریت یوں پھسلی مرے پاؤں سے جیسے لمحے
سیپ ملتے گئے ساگر سے ملاقاتیں کیں
چاند سے ٹوٹ کے کرنیں مرے قدموں میں گریں
ہار کے میری خودی نے بھی تری باتیں کیں
میں نے جب گہرے سمندر میں اترنا چاہا
چاند نے ڈر کے بہت کرنوں کی برساتیں کیں
چاہتی جو تھی مجھے مل تو گیا ہے لیکن
تم جو بچھڑے تو مرے دل نے بڑی گھاتیں کیں
تم کبھی آؤ تو مل جائیں بچھڑتی لہریں
کتنے دن بیتے پرانی نہ نئی باتیں کیں
ٹوٹ کر برسے مرے نیناں سے چھم چھم موتی
پھر تمہارے لئے اک دل نے مناجاتیں کیں
شاعری شعوری کوشش ہے یا آپ ٹرانس میں آکر بس لکھتی چلی جاتی ہیں؟
کچھ بھی لکھنے سے پہلے شعور میں ان خیالات کی موجودگی ضروری ہے جن سے تخلیق ہوتی ہے اور یہ نمو کب کہاں ہوجائے اس کا کبھی تعین نہیں ہوسکتا،کبھی کوئی کردار لکھواتا ہے تو کبھی کوئی موسم، وہ موسم دل کا بھی ہو سکتا ہے۔
اگر اپنی مرضی مسلط کی ہے تو وہ مواد چیخ چیخ کر بتادیتا ہے کہ اس پر کچھ کام کیا جائے،
روز دیکھا ہے شفق سے وہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہے کہ تم میرے ہو، میرے ہو نا
بقول آپ کے 'ٹرانس' میں لکھا تھا درست کرنے کی ضرورت محسوس بہیں ہوئی۔
لکھنے کے لیئے کوئی معقول جواز نہیں ہوتا میرے پاس،یوں سمجھ لیں کہ بہت کچہ مجھے بھی دیر میں سمجھ آتا ہے کہ کیا کہہ گئی ہوں،
ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات کسی موقع کی بنا پر لامحالہ لکھنا ہی پڑا، اس تقاضے کو پورا کرنے میں تسکین نہیں ملتی ایسا لگتا ہے کہ قلم کو طاقت سے نیچا دکھا رہی ہوں یا ظلم کررہی ہوں۔
ہ نیناں آپ کچھ لکھتے وقت سوچ رہی ہوتی ہیں یا سوچتے سوچتے لکھنے لگتی ہیں؟
اوپر جو کچھ تحریر ہے ان میں اس سوال کا جواب بھی مل جانا چاہیئے پھر بھی حقیقت یوں ہے کہ خبر نگاری کرتے کرتے شاعری ناقابل ضبط خواہش کی طرح اپنی من مانی کرنے لگتی ہے،گھیر گھار کر سوچ کو مجتمع کرتی ہوں اور وہ بند مٹھیوں سے پانی کی طرح بہہ جاتی ہے،
میرا عالم یہ ہوتا ہے کہ سامنے ٹیلیویزن چل رہا ہےادھر ایک کان میں ہیڈفون لگا ہے کچھ نہ کچھ ریکارڈ، چیک یا کاپی کررہی ہوتی ہوں ساتھ کتاب بھی کھلی ہوتی ہے اور نوٹ بک پر قلم بھی چل رہا ہوتا ہے،مجھ سے اکثر استفسار کیا جاتا ہے کہ آخر آپ کونسا والا کام کر رہی ہیں،
اس بات کے تناظر میں اگر آپ مجھے غیر معمولی سمجھیں تو غلط ہوگا،مجھے ایسی کسی صلاحیت کا دعوی نہیں، بس کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ عبور کرنے کا عمل ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔
ہ کیا اپنا لکھا ہوا کچھ کبھی بُرا لگا۔۔؟
انسانی طبیعت غور و فکر کا جو تقاضا کرتی ہے اسی تقاضے کے تحت اپنے لکھے ہوئے کو کئی مرتبہ رد کیا ہے،بہت کچھ منفرد کرنا چاہتی ہوں لیکن قادر نہیں ہوئی،انداز تحریر پر ہمیشہ اپنے آپ کو قائل پایا کہ بہتری کی گنجائش تھی، تخیل کی دنیا میں گہرائی سے جھانکا ہوتا،ندرت کے نکات پر غور کیا ہوتا،الفاظ کی جدت سے تاثیر بدلی ہوتی وغیرہ وغیرہ
جوں جوں لکھتی ہوں کم مائیگی کا احساس بڑھتا جاتا ہے۔
جس کی وجہ سے بد دلی حاوی ہورہی ہے۔
ہ آپ کے خیال میں شاعر واقعی میں بہت حساس ہوتے ہیں یا یہ ضروری نہیں ہوتا؟
اصل میں شاعری کرنا میرا کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہیں تھا،سوچ اور جذبات ایک کرب کی کیفیت میں مبتلا کرتے تھے،وطن سے دوری کی بنا پر گھٹن سے نجات حاصل کرنے کے لیئے لکھنے لگی تھی احساس میں تلاطم برپا ہوتا تھا،لہذا ثابت ہوا کہ یہ سطح اوروں کی نسبت بلند ہوتی ہے ،ویسےمیں اپنے لکھے کو تک بندیاں ہی سمجھتی ہوں۔
اچھوتی سزا آزماؤں گی خود پر
میں آپ اپنا دل ریزہ ریزہ کروں گی
ٹکڑے کرنا اور پھر جوڑنا مشغلہ بن گیا،ویسے تو تمام شعرا یہی پس منظر بتاتے ہیں لیکن میں نے جب مشاعروں کو اختیار کیا تو صورتحال یوں تھی کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
کوئی شہرت چاہتا ہے کوئی پیسہ، یہاں حساسیت سے عاری جتنے لوگ مجھے نظر آئےاور کہیں نہیں دیکھے، الفاظ کی ریاضی سیکھ کر زیادہ تر لوگ دو اور دو چار کر رہے ہیں،جس سے مجھے سخت اختلاف ہے
شدت احساس کے تحت کی گئی شاعری کو پہچاننا کوئی مشکل نہیں۔
بیشک سب لوگ نگینے کی مانند فٹ ہیں لیکن انگوٹھیاں تو ساری انگلیوں میں پہنی جاسکتی ہیں نا، کئی نگینے ہوجائیں تو کیا قباحت ہے،
اچھا مذاق برطرف۔ ۔۔
ذرا''باجو'' اور ''شگفتہ'' نام کی انگوٹھیاں تو بنائیں'جلدی سے'
‘‘ہمممم یعنی کسی حال میں خود کو اکیلا نہیں چھوڑنا‘‘
یہ تو آپ نے اکدم وہ بات کہدی جو سب گھر والے کہتے ہیں
لیکن اس میں میرا قصور نہیں، شاید یہ میری جینز میں ہے، کیونکہ میری ممی بھی ایسی ہی تھیں۔
‘‘لگا جیسے یہ میں نے لکھا ہو ۔۔۔ میری لڑائی منہ سے نہیں پنجوں سے آئی مین ہاتھوں سے ہوتی ہے ۔۔۔ کیا آپ نے کبھی ان بھائی صاحب پر اپنے ہاتھوں کا استعمال کیا۔۔؟
نیناں یہ پڑھ کر مجھے ایک سوال پوچھنے کا خیال آیا۔۔۔
ہ آپ کی نظر میں دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ÷تعلق۔۔؟؟؟
ہ کیا بھائی سے تعلقات اب بھی ویسے ہیں یا نہیں۔۔؟‘‘
امن، اگر میں آپ کو اپنی کارستانیاں بتانا شروع کردوں تو ''مار دھاڑ'' سے بھرپور فلم دکھانے کا الزام لگ جائے گا،
انسان اپنے بارے میں متعصب تو ہوتا ہی ہے لیکن اس تعصب کو غیر فطری نہیں ہونا چاہیئے، آپ نے مجھے انکشاف ذات پر مجبور کر ہی لیا ہے تو اپنے بارے میں ایمانداری سے بتاؤں گی، ضروری نہیں کہ آپ ان انکشافات کو معقول بھی سمجھیں، خاصی پارہ فطرت تھی میں۔ ۔ ۔
ہمارے پڑوس والے گھر کے آم کے پیڑ سے کیریاں توڑنی تھیں، چھت کی دیوار کے کنارے
پر پاؤں رکھا اور کود گئی مزے سے کچھ کیریاںادہر اڑسیں کچھ ادہر اڑس لیں اور کچھ اپنی سہیلی کو ''باجو نہیں'' یہ دوسری سہیلی تھی نیچے پھینکتی گئی واپس چھجے سے کود کر جیسے ہی گھر کی چھت پر پہنچی کسی کے اوپر آتے قدموں کی چاپ سنائی دی، میں نے جلدی سے اوپر والے کمرے کی بیڈ کے نیچے پناہ لی، بھائی صاحب کی صورت شامت اوپر آچکی تھی،
انہوں نے کہا کہ فورا باہر نکلو، میں انکاری بھائی صاحب بضد اور میں نکل کے نہ دوں، خیر نکلنا تو پڑا لیکن کیریاں جہاں جہاں چھپائیں تھیں وہ مارا ماری میں نکلیں تو پھر ہینڈگرینیڈ کی ضرورت نہیں پیش آئی جو درگت بنی اس کا حال مت پوچھیں،
اپنی کیریاں سنبھال کرسہیلی کہاں پر لگا کر اڑگئی اس کا مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ ۔ ۔
یہیں کسی دھاگے میں، میں نے محلے کے ایک لڑکے سے کنچے کھیلتے ہوئے بے ایمانی پر اس کی آنکھ پھوڑنے کا واقعہ لکھا ہے اور اس کی طرح کی کئی کہانیاں ہیں لیکن بھائی صاحب نے اس بات پر جو لیکچر دیا تھااور خبر لی تھی وہ آج بھی یاد ہے۔
الحمد للہ کہ بھائی سے تعلق ویسا ہی بلکہ دوری کی وجہ سے جذباتی طور پر اور بھی زیادہ مضبوط ہے، میں جب کراچی میں ان کے یہاں جاؤں تو باتیں ختم ہی نہیں ہوتیں رات سے صبح ہوجاتی ہے۔
دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ 'ماں'
اس بارے لکھنے پر ابھی مت اکسائیے ورنہ سلسلہ کئی روز تک جا پہنچے گا
آپ کو ایک تنبیہہ' اس طرح کی میٹھی نیند'' سونے والی بات کبھی مت کیجئے گا۔
ہ نیناں کیا آپ شاعری تبھی لکھتی ہیں جب فراغت میسر آئے ؟
شعر لکھنا اصل میں فن یا ہنر سے زیادہ ایک مزاجی کیفیت ہے، کبھی کبھار بیحد شوروغل اور ہنگامے میں بھی مسلسل آمد ہوئی ہے اور کبھی پرسکون سناٹے و بے انتہا تنہائی کے لمحے میسر ہونے کے باوجود کچھ نہیں لکھا جاتا۔
فطرت مجھ پر بہت اثر انداز ہوتی ہے،''بورن نیچرلسٹ'' ہوں، کسی حسین منظر کی دلکشی تصوراتی منظر میں لے جائے تو میں لکھنے کو بیقرار ہوجاتی ہوں بلکہ یہ کہیئے کہ کام کے ساتھ ساتھ لکھ رہی ہوتی ہوں،
چاند پر ایک بہت رومانٹک غزل ''ڈینٹسٹ'' کے ویٹنگ روم میں انتظار کرتے کرتے لکھی تھی۔
''دریائےنیل'' والی نظم بچوں کی ایمینیشن مووی '' پرنس آف ایجپٹ'' دیکھتے ہوئے لکھی تھی۔
کراچی کے ''سی ویو'' پر اپنی کزنز اور بھابھیوں کے ساتھ ٹہلتے ہوئے جو لکھا اسے یہاں نقل کر نے سے پہلے یہ بتادوں کہ اس رات پورا چاند تھا اس کے گرد بڑا سا روشن ہالہ مجھ سے تنہائی کا تقاضہ کر رہا تھا، لہریں لگتا تھا چاندی سے بنی ہوئی ہیں،
ارد گرد شرارتیوں کا ٹولہ تھا جن کی باتیں دوڑ دوڑ کر پاؤں چھوتی ہوئی لہروں سے سبقت لیجانے کے لئے تواتر سے چھینٹے اڑانے میں مشغول تھیں،ویسے بھی میں جب جاتی ہوں تو سبھی مکمل توجہ دیتے ہیں لہذا ہاتھ جوڑ کر ان سے کہنا پڑا کہ خدا کے لیئے مجھے تھوڑی دیر کے لیئے اپنے آپ سے دور اکیلے چلنے دو۔
کیا کیا جواب ملے، کتنی چوکیداری ہوئی یہ کہانی پھر سہی، پہلے وہ غزل ملاحظہ کیجئے۔
بے خبر، میں نے سمندر سے بہت باتیں کیں
یاد کے ساتھ اکیلے ہی بہت راتیں کیں
ریت یوں پھسلی مرے پاؤں سے جیسے لمحے
سیپ ملتے گئے ساگر سے ملاقاتیں کیں
چاند سے ٹوٹ کے کرنیں مرے قدموں میں گریں
ہار کے میری خودی نے بھی تری باتیں کیں
میں نے جب گہرے سمندر میں اترنا چاہا
چاند نے ڈر کے بہت کرنوں کی برساتیں کیں
چاہتی جو تھی مجھے مل تو گیا ہے لیکن
تم جو بچھڑے تو مرے دل نے بڑی گھاتیں کیں
تم کبھی آؤ تو مل جائیں بچھڑتی لہریں
کتنے دن بیتے پرانی نہ نئی باتیں کیں
ٹوٹ کر برسے مرے نیناں سے چھم چھم موتی
پھر تمہارے لئے اک دل نے مناجاتیں کیں
شاعری شعوری کوشش ہے یا آپ ٹرانس میں آکر بس لکھتی چلی جاتی ہیں؟
کچھ بھی لکھنے سے پہلے شعور میں ان خیالات کی موجودگی ضروری ہے جن سے تخلیق ہوتی ہے اور یہ نمو کب کہاں ہوجائے اس کا کبھی تعین نہیں ہوسکتا،کبھی کوئی کردار لکھواتا ہے تو کبھی کوئی موسم، وہ موسم دل کا بھی ہو سکتا ہے۔
اگر اپنی مرضی مسلط کی ہے تو وہ مواد چیخ چیخ کر بتادیتا ہے کہ اس پر کچھ کام کیا جائے،
روز دیکھا ہے شفق سے وہ پگھلتا سونا
روز سوچا ہے کہ تم میرے ہو، میرے ہو نا
بقول آپ کے 'ٹرانس' میں لکھا تھا درست کرنے کی ضرورت محسوس بہیں ہوئی۔
لکھنے کے لیئے کوئی معقول جواز نہیں ہوتا میرے پاس،یوں سمجھ لیں کہ بہت کچہ مجھے بھی دیر میں سمجھ آتا ہے کہ کیا کہہ گئی ہوں،
ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات کسی موقع کی بنا پر لامحالہ لکھنا ہی پڑا، اس تقاضے کو پورا کرنے میں تسکین نہیں ملتی ایسا لگتا ہے کہ قلم کو طاقت سے نیچا دکھا رہی ہوں یا ظلم کررہی ہوں۔
ہ نیناں آپ کچھ لکھتے وقت سوچ رہی ہوتی ہیں یا سوچتے سوچتے لکھنے لگتی ہیں؟
اوپر جو کچھ تحریر ہے ان میں اس سوال کا جواب بھی مل جانا چاہیئے پھر بھی حقیقت یوں ہے کہ خبر نگاری کرتے کرتے شاعری ناقابل ضبط خواہش کی طرح اپنی من مانی کرنے لگتی ہے،گھیر گھار کر سوچ کو مجتمع کرتی ہوں اور وہ بند مٹھیوں سے پانی کی طرح بہہ جاتی ہے،
میرا عالم یہ ہوتا ہے کہ سامنے ٹیلیویزن چل رہا ہےادھر ایک کان میں ہیڈفون لگا ہے کچھ نہ کچھ ریکارڈ، چیک یا کاپی کررہی ہوتی ہوں ساتھ کتاب بھی کھلی ہوتی ہے اور نوٹ بک پر قلم بھی چل رہا ہوتا ہے،مجھ سے اکثر استفسار کیا جاتا ہے کہ آخر آپ کونسا والا کام کر رہی ہیں،
اس بات کے تناظر میں اگر آپ مجھے غیر معمولی سمجھیں تو غلط ہوگا،مجھے ایسی کسی صلاحیت کا دعوی نہیں، بس کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ عبور کرنے کا عمل ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔
ہ کیا اپنا لکھا ہوا کچھ کبھی بُرا لگا۔۔؟
انسانی طبیعت غور و فکر کا جو تقاضا کرتی ہے اسی تقاضے کے تحت اپنے لکھے ہوئے کو کئی مرتبہ رد کیا ہے،بہت کچھ منفرد کرنا چاہتی ہوں لیکن قادر نہیں ہوئی،انداز تحریر پر ہمیشہ اپنے آپ کو قائل پایا کہ بہتری کی گنجائش تھی، تخیل کی دنیا میں گہرائی سے جھانکا ہوتا،ندرت کے نکات پر غور کیا ہوتا،الفاظ کی جدت سے تاثیر بدلی ہوتی وغیرہ وغیرہ
جوں جوں لکھتی ہوں کم مائیگی کا احساس بڑھتا جاتا ہے۔
جس کی وجہ سے بد دلی حاوی ہورہی ہے۔
ہ آپ کے خیال میں شاعر واقعی میں بہت حساس ہوتے ہیں یا یہ ضروری نہیں ہوتا؟
اصل میں شاعری کرنا میرا کوئی سوچا سمجھا منصوبہ نہیں تھا،سوچ اور جذبات ایک کرب کی کیفیت میں مبتلا کرتے تھے،وطن سے دوری کی بنا پر گھٹن سے نجات حاصل کرنے کے لیئے لکھنے لگی تھی احساس میں تلاطم برپا ہوتا تھا،لہذا ثابت ہوا کہ یہ سطح اوروں کی نسبت بلند ہوتی ہے ،ویسےمیں اپنے لکھے کو تک بندیاں ہی سمجھتی ہوں۔
اچھوتی سزا آزماؤں گی خود پر
میں آپ اپنا دل ریزہ ریزہ کروں گی
ٹکڑے کرنا اور پھر جوڑنا مشغلہ بن گیا،ویسے تو تمام شعرا یہی پس منظر بتاتے ہیں لیکن میں نے جب مشاعروں کو اختیار کیا تو صورتحال یوں تھی کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
کوئی شہرت چاہتا ہے کوئی پیسہ، یہاں حساسیت سے عاری جتنے لوگ مجھے نظر آئےاور کہیں نہیں دیکھے، الفاظ کی ریاضی سیکھ کر زیادہ تر لوگ دو اور دو چار کر رہے ہیں،جس سے مجھے سخت اختلاف ہے
شدت احساس کے تحت کی گئی شاعری کو پہچاننا کوئی مشکل نہیں۔