بحور سے آزاد نکاح و طلاق

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جی وہ دو نکاح میرج ہال میں عام عرف کی صورت میں ہوئے۔ راس نہ آنے کا سوال بہت مشکل ہے۔ سینکڑوں عوامل مل کر ایک شادی کو چلاتے ہیں۔
ذاتی زندگی پر بات کرنے پر معذرت، شاید میں کچھ زیادتی کر گیا۔
سادہ جزیرہ نظم جیسے نکاح کا تذکرہ کرنا اسلام کی وسعت کو واضح کرنا ہے جو مسلک اور اس سے بڑھ کر فقہ میں مسخ ہو چکی ہے۔
شدید اختلاف
 
کیا واقعی؟
ایسا اطمینان تو سراسر خود غرضی ہوا۔
غیر ضروری ٹوہ اور کھوج ایک گناہ ہے۔ جس نے شروع کیا اصل میں وہ ظالم ہے۔ اسلام ہر فرد کو اس کی ذاتی زندگی کا حق دیتا ہے، اور کسی کی اجازت کے بغیر اس کی زندگی میں دخل اندازی کو ظلم سمجھتا ہے۔

لوگوں کے راز جاننا اور پھر انہیں دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ تجسس اکثر غلط فہمیوں اور جھگڑوں کا باعث بنتا ہے۔

جو شخص دوسروں کی خامیوں کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کی خامیوں کے پیچھے پڑ جائے گا، یہاں تک کہ اسے گھر کے اندر بھی رسوا کر دے گا۔" (سنن ابوداؤد: 4880)

"اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، اور نہ تجسس کیا کرو ۔"
(سورۃ الحجرات: 12)

اسکے بجائے اپنے اعمال اور نیتوں کا جائزہ لیں اور اللہ سے ہدایت طلب کریں۔ کسی کی ذاتی زندگی یا غلطیوں کو کریدنے کے بجائے ان کے لیے دعا کریں۔ اگر کوئی آپ کے پاس اپنی پریشانی یا مدد کے لیے آئے تو اس کا ساتھ دیں، لیکن اس کی راز داری کا احترام کریں۔ وقت ضائع کرنے کے بجائے عبادت، تعلیم، یا کسی معاشرتی خدمت میں مشغول رہیں۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کریں اور دوسروں کی نعمتوں پر حسد کرنے کے بجائے اپنی محنت پر بھروسا کریں۔دلجوئی کریں، اگر بولیں تو ایسا بولیں جو لوگوں کے دلوں کو خوش کرے اور ان کے مسائل کا حل بنے۔
 
آخری تدوین:
ذاتی زندگی پر بات کرنے پر معذرت، شاید میں کچھ زیادتی کر گیا۔

شدید اختلاف
نہیں کوئی بات نہیں۔

میں آپکے شدت اختلاف کی وجہ کو جانتا بھی ہوں اور صحیح سمجھتا ہوں۔ بالآخر نہ آپ نہ کوئی اور میری طرف اس نوعیت کا نکاح کرنے والا ہے۔

یہ محض ایک نظری بات ہے جو وسعت دین کے لیے ظاہر کی۔ علماء و مشائخ نجی مجالس میں ان چیزوں کی تائید کرتے ہیں لیکن کسی میں اتنا یارا نہیں کہ اس عظیم بوجھ کو کامیابی سے اٹھا سکے۔

فی الحال اتنا کافی ہے کہ انسان ان چیزوں کے بجائے عبادت و تسبیح اور دیگر کاروبار زندگی میں وقت لگائے۔ ایک مسلک کو چن لے اور اطمینان سے زندگی تمام کرے۔
 
کس کو پڑی کہ آپ کی ذاتی زندگی کی ٹوہ لگاتا پھرے۔۔۔
ایک کہانی کا لنک تو جگہ جگہ خود دیتے پھر رہے ہیں ۔
کچھ کو سخت خوف ہے کہ میں اس بندے کو نہیں جانتا کہ کون ہے۔ کچھ کو تجسس ہے کہ ہیں کون۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کا سیر حاصل جواب ایک دفعہ دے دیا تھا تاکہ دوبارہ پوچھنے کی نوبت نہ آئے۔ خیر صحیح کہہ رہیں ہیں کہ میں نے بوجہ خود شئیر کیا ہے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
کچھ کو سخت خوف ہے کہ میں اس بندے کو نہیں جانتا کہ کون ہے۔ کچھ کو تجسس ہے کہ ہیں کون۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کا سیر حاصل جواب ایک دفعہ دے دیا تھا تاکہ دوبارہ پوچھنے کی نوبت نہ آئے۔ خیر صحیح کہہ رہیں ہیں کہ میں نے بوجہ خود شئیر کیا ہے۔
تو جس سے کہنا ہے، اسے کہئیے۔ دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھنا کیسی اخلاقیات ہیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ نے کہا کہ خود غرضی ہوئی کہ کہانی لکھ کر خود تعمیری کاموں میں لگ گئے۔ یہ اسکا جواب تھا۔
پر سانوں کی تے تہانوں کی۔
ہر ایک کو اس کی نیت اور عمل کا پھل ملنا ہے۔
اربش علی کا مراسلہ سمجھ ا تھا یہ ہم نے۔
 
خود غرضی ضرور لکھا ہم نے۔ لیکن کوئی ایسا تعمیری کام نظر سے گزرا نہیں جس کا ہم تذکرہ کرتے۔
ارے جانے دیں۔ اللہ خیر و عافیت سے رکھے آپکو۔ کاڑھتی، پروتی، بیکنگ کرتی، اے آئی ویڈیو بناتی خوش و خرم اور آباد رہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
جی وہ دو نکاح میرج ہال میں عام عرف کی صورت میں ہوئے۔ راس نہ آنے کا سوال بہت مشکل ہے۔ سینکڑوں عوامل مل کر ایک شادی کو چلاتے ہیں۔

ویسے تو سادگی سے نکاح ہی کروں گا لیکن جزیرہ تو ایک تخیلاتی نظم ہے جس میں میں نے اپنی رومانوی سمت کا اظہار کیا ہے۔

سادہ جزیرہ نظم جیسے نکاح کا تذکرہ کرنا اسلام کی وسعت کو واضح کرنا ہے جو مسلک اور اس سے بڑھ کر فقہ میں مسخ ہو چکی ہے۔
آپ نے مختصراً اپنی جو کہانی مراسلہ نمبر 64 میں لکھی ہے ۔ اس سے کم از کم مجھ پر تو یہ بات عیاں ہوگئی کہ آپ کو کن کن مسائل کا سامنا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے آپ سے کئی بار سوال کیا تھا کہ کیا آپ شادی شدہ ہیں ؟ کیونکہ ایسا ذہنی انتشار ، ذہنی خلجان ، باتیں بے ربط ، طبعیت میں انانیت ، خود پسندی ، گفتگو میں اتار چڑھاؤ ، اگر کسی شخصیت میں موجود ہو تو وہ بہت بڑے ازداوجی بحران سے گذرا ہوتا ہے ۔ اس کیفیت میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ انسان پھر کسی ایسے موضوع کا انتخاب کرتا ہے ۔ جہاں وہاں مختلف مکتبِ فکر کے افراد سے مختلف انداز میں بحث کرکے اپنے اندر کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ کو کم کرسکے۔ اس دوران اس کا رویہ بھی ماحول کے مطابق بدلتا رہتا ہے ۔ لوگ سختی برتنے لگیں تو نرم لہجہ اختیار کرکے معدافانہ رویہ اختیار کرلیتا ہے ۔ اور جہاں دیکھتا ہے کہ لوگ اس کی باتوں سے مرعوب ہورہے ہیں تو وہاں وہ ان پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔
مجھے آپ کی ذاتی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ آپ کا خالص اندورنی معاملہ ہے ۔ مگر جب انسان اتنے سارے لوگوں سے الجھتا ہے تو کچھ ذاتی چیزیں بھی زیرِ بحث آجاتیں ہیں ۔
ایک جگہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ ایک محقیق اور طالب علم ہیں ۔ یہ بات بھی آپ کی دوسری باتوں سے چغلی کھاتی ہے ۔ کیونکہ ایک محقیق صرف اپنی تحقیق سامنے رکھتا ہے ۔ اس پر بحث نہیں کرتا ۔ بلکہ صرف حوالے اور ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ رہی طالب علم کی بات تو طالب علم کی کیا مجال کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات پر اڑ جائے کہ اس بات ہی حتمی اور آخری ہے ۔ مگر آپ میں یہ صلاحیت بھی نظر نہیں آتی کہ آپ اپنی ہر بات کو آسمان سے اُتری ہوئی بات ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ اور دعوؤں سے بھی پرہیز نہیں کرتے ۔
آپ میں محقیق کی صلاحیت ہوگی اور ہونی بھی چاہیئے کہ آپ نے اچھا خاصا مواد یہاں اپنی تحریروں میں جمع کیا ہے ۔ مگر کیا اچھا ہی ہوتا کہ آپ اپنی کہی ہوئی بات کو تحقیق کے طور پر ہی پیش کرتے کہ یہ میں نے تحقیق کی ہے اور اسے اپنے فہم کے مطابق تشریح کرکے اس شکل میں پیش کیا ہے ۔ یہ میرا استدلال ہے ۔ اس میں آپ کی کیا رائے ہے ۔ ؟ اور یہی ایک طالب علم کا رویہ بھی ہونا چاہیئے ۔ مگر آپ نے ایسانہیں کیا ۔ بلکہ اپنی ہر کہی ہوئی بات کو حرفِ آخر جانا اور زبردستی لوگوں پر ٹھوسنے کی کوشش کی ۔
آپ اپنی صلاحیتوں کو مثبت رخ دینا سیکھیں ۔ لوگوں کے سامنے اپنی بات کو دلائل اور استدلال سے ثابت کریں ۔ لوگوں سے یہ مت کہیں کہ آپ سب غلط ہو ۔ میں صحیح بات لایا ہوں ۔ کوئی بھی آپ کی بات نہیں مانے گا ۔ بلکہ اس مخالفت اور انتشار کو ہوا ملے گی ۔ جو کہ ملی بھی ہے ۔
باقی آپ نے اپنی تیسری شادی کے حوالے سے جس خواہش کا اظہار کیا ہے ۔ اس پر میں کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہوں ۔ :notworthy:
 

ابو ہاشم

محفلین
پہلی کہانی:
ظفگران سبک خرامی سے ڈیپارٹمنٹ کی اور جا رہا تھا کہ اسے نہر کنارے اظفرینہ دکھائی دی۔ وہ سامنے چمکتے سورج کو اپنی مُندی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ دسمبر کا سورج تھا، سو خود کو دیکھتے رہنے کی اجازت دے رہا تھا۔ اظفرینہ کے دائیں ہاتھ میں بھٹہ تھا، جس کے اوپر لگے ریشے میں سے ایک اس کے نازک ہونٹوں پہ چپک گیا تھا۔ ظفگران نے جونہی اظفرینہ کو نہر کنارے اس قدر آرام سے بیٹھے دیکھا تو دھڑام سے اس کے نزدیک آ کے بیٹھ گیا کہ اظفرینہ کے حلق سے ایک خوفناک سی چیخ نکلی۔

" دھاڑ وے!"
حالانکہ نیو کیمپس سے اولڈ کیمپس کے راستے میں بس پہ سوار اظفرینہ کے منہ سے ظفگران نے خود اپنے واقعتاً گناہگار کانوں سے انتہائی سریلی "آؤؤؤچ " کئی بار سُنی تھی۔ لیکن وہ نظر انداز کر گیا اور اس کے ہاتھ سے بھٹہ پکڑ کے کھانے لگا۔
"تم کلاس نہیں لو گے؟"
"اور تم؟ تم بھی تو کلاس بنک کر کے یہاں اداس بلبل بنی بھٹہ کھا رہی ہو۔ "
"ظفگران! کچھ کرو۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔" اس نے ظفگران کے ہاتھ کو اپنے منہ کے قریب کر کے بھٹے میں دانت گاڑے۔
"ظفگران کی جان! اب تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ اپنے رافع بھائی نے محبت بھرے دلوں کے لیے اس ظالم سماج کی ساری دیواریں گرا دی ہیں۔ اب ہمارے راستے میں کوئی دیوار نہیں ہے۔ سامنے کہکشاں ہی کہکشاں ہے۔ آؤ میرے ہاتھ میں ہاتھ دو۔ " ظفگران نے بائیں ہاتھ سے بھٹہ دائیں ہاتھ میں منتقل کیا اور اظفرینہ کا دایاں ہاتھ تھام لیا۔
"تم مجھے قبول ہو۔" اس نے ایک جذب کے عالم میں کہا۔
"اب تم بھی یہی جملہ دہراؤ۔ اور تین بار دہرانے کی بھی ضرورت نہیں۔ رب نے محبت ارزاں کر دی ہے جانم!"
"مجھے تم قبول ہو ظفگران!" اظفرینہ نے اس کے کندھے پہ سر رکھ دیا۔
بس اب اسی لمحے سے ہم ایک ہو گئے میری ہمدم! اب ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا۔ آؤ میرے ساتھ۔" ظفگران نے اٹھ کے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اظفرینہ اس کا ہاتھ تھام کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں ظفگران کی موٹر سائیکل کی اور جانے لگے۔

۔۔۔
ا چھرہ کے اس رش بھرے بازار کو دسمبر کے آخری ہفتے کے سورج کی اداس کرنیں تک رہی تھیں۔ ظفگران، اظفرینہ کے ساتھ تھوڑا تیز قدموں سے چلتے چلتے اچھرہ کے پُل کے پاس ٹھہرا۔ یہ لو تین سو روپے۔" اس نے اظفرینہ کے ہاتھ میں پیسے رکھے۔
"ادھر آسانی سے رکشہ مل جاتا ہے۔" وہ ایک لمحے کے لیے ٹھہرا۔
"میں نے تمہیں طلاق دی۔"
"کل کلاس میں ملیں گے۔ گڈ بائے!"
۔۔۔
ایک دو سوال:
1. جب یہ دونوں اپنے خیال میں نکاح میں بندھ گئے اور خلوت بھی کر لی تو اس کے بعد اس نے طلاق کیوں دی؟ کیا اگلے دن ان کا خلوت کے لیے جی نہیں چاہے گا ؟
 
Top