نکل کر خانقاہوںسے ادا کر رسم شبیری
کہ خانقاہیںسکھاتی ہیںفقط اندوہ و دلگیری
تیرے دین و ادب سے آرہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوںکا عالم پیری
یہ جو زندگی کی کتاب ہے، یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں اک حسیں سا خواب ہے، کہیں جاں لیوا عذاب ہے
کہیں چھاؤں ہے کہیں دھوپ ہے، کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کئی چہرے اس میں چھپے ہوئے، اک حجاب سی یہ نقاب ہے