سعود الحسن
محفلین
میرا تعلق کسی گروہ ،کسی فرقے سے نہیں ،میرا تعلق تو بس انسانیت سے ہے۔میں کسی ملک کا باسی یا کسی ملک کا محافظ بھی نہیںمیں تو بس ایک انسان ہوںایک عام سا انسان میری جان کے ساتھ چھ جانیں اور بھی وابستہ ہیں۔۔۔میری دن بھر کی مزدوری سے ایک وقت کا چولہا بمشکل جلتا ہے ۔۔۔۔۔
اب جو جنگ کے بادل منڈ لا رہے ہیں یہ بھلا کس حق اورکس باطل کی جنگ ہے ۔۔۔میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے میں جاہل ہوں شاید اس لیے۔۔۔۔مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ اس جنگ سے میرا چولہا بجھ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں پتہ کہ اقتدار کا نشہ کیسا ہوتا ہے ۔۔۔مجھے کیا پتہ جیت کی خوشی کسے کہتے ہیں میرے لیے تو وہ دن مسرور کن ہوتا ہے جب مجھے مزدوری مل جاتی ہے۔۔۔۔میرے لیے تو وہ رات خوشی کی ہوتی ہے جب میرے ساتھ وابستہ جانیں پیٹ بھر کر سوتی ہیں۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم جنگ فتح کے لیے لڑی جاتی ہے۔۔۔مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ اس جنگ سے میرا چولہا بجھ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میںخود میںدشمن کے خلاف جوش اور نفرت بھی محسوس نہیںکر پاتا کہ انسانوں کی قائم کی ہوئی سرحدوں کے اس پار بھی انسان ہی بستے ہیں۔۔۔میری ہی طرح کے انسان ۔۔۔بس عام سے انسان۔۔۔۔۔میری ہی طرح کسی کا مان، کسی کے لیے شفقت اور کسی کا سہارا۔۔۔بھلا ان کو زخموں میں چور دیکھ کر ، ان مجبوروں کو اور مجبور دیکھ کر میرا ایمان تازہ اور میرا حوصلہ کیسے بلند ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔اس جنگ سے تو انسانیت کا حوصلہ مر جائے گا ۔۔۔۔اس جنگ سے تو میرا چولہا بجھ جائے گا۔۔۔۔
سارہ بہت اچھا اور بامقصد لکھا ہے، اس سے تمھاری سوچ کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اصل میں جنگی جنون میں عام آدمی کی آواز کوئی سننے کو تیار نہیں ہوتا، بلکہ اسے غدار اور بزدل کے تانے ہی ملتے ہیں، مخالفت سے نہ گھبراوں سچ بولتی رہوں، اس طرح سوچنے والوںکی سرحد کے دونوں طرف کوئی کمی نہیں ہے ، ضرورت ہے تو بولنے کی،
مجھے یقین ہے کہ سرحد کے اس طرف کوئی سارہ ہندوستان بھی کیسی ہندی محفل میں اس ہی طرح سوچ اور لکھ رہی ہوگی ، اور اس ہی طرح وہاں بھی اس سوچ کو بذدلی اور غداری کہا جا رہا ہوگا۔
لیکن کیا فرق پڑتا ہے سچ کی مخالفت تو ہر وقت اور ہر جگہ ہوتی ہے۔