جن بھوت؟

کیا آپ جنوں وغیرہ میں یقین رکھتے ہیں؟


  • Total voters
    107

شاکرالقادری

لائبریرین
جنات کیا ہیں ؟؟؟
لفظ جن لغوی بحث:
جن جمع ہے ۔ اس کا واح جنی ہے۔ جس طرح روم کا واحد رومی ہے ۔ اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
اصل الجن ستر الشیئ عن الحاسر
کسی چیز کے حواس سے پوشیدہ ہونے کو جن کہتے ہیں
انہوں نے اس مادہ سے کئی مشتقات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ان سب میں یہ معنی موجود ہے ۔ جیسے ماں کے شکم میں جو حمل ہوتا ہے اس کو جنین کہتے ہیں ۔ دل کو جنان
کہتے ہیں جو سینے میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ مجنت ڈھال کو کہتے ہیں جو انسان کو دشمن کے وار سے چھپا لیتی ہے ۔ اس لفظ کی لغوی تحقیق کے بعد علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
ان الروحانینن ثلاثت اخیار وھم الملائکت واشرار وھم الشیاطین واوساط فیھم اخیار و اشرار وھم الجن
روحانی مخلوق کی تین قسمیں ہیں ایک وہ قسم ہے جو سراپاخیر ہی خیر ہے وہ فرشتے ہیں دوسری قسم ان کی ہے سراسر شر ہی شر ہیں وہ شیاطین ہیں تیسری قسم و ہ ہے جسیں کچھ نیک اور کچھ شریر ہوتے ہیں وہ جن ہیں
علامہ ثنائ اللہ پانی پتی نے جنات کی حقیقت کے بارے میں اہل سنت کی تحقیقات کا خلاصہ ان الفاظ رقم فرمایا ہے:
الجن اجسام ذات ارواح کالحیوان عاقلت کالانسان خفیت عن اعین الناس ولذا سمیت جنا خلق من النار کما خلق آدم من طین تتصف بالذکورت والانوثت وتتوالد والظاہر ان الشیاطین منھم خلاف الملائکت فانھم لا یتصفون ابالذکلورت ولا بالانوثت ووجود الجن والشیاطین والملائکت ثابت بالشرع وانکرہ الفلاسفت
جن اجسام ہیں ان میں ارواح ہوتی ہیں جس طرح حیوان یہ انسان کی طرح عقلمند ہوتے ہیں لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ وہتے ہیں اسی لئے انہیں جن کہا جاتا ہے ان کی تخلیق آگ سے کی گئہی ہے جیسے آدم کی مٹی سے ان میںنر مادہ بھی ہیں ان کی اولاد بھی پیدا ہوتی ہے لےکن فرشنتے نر مادہ نہیں ہوتے جنات شیاطین اور ملائکہ کا وجود شریعت سے ثابت ہے
فلاسفہ اس کا انکار کرتے ہیں ہمارے متجددین جنات کے وجود سے انکار کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جنات کے بارے میں جو قصے اور واقعات زبان زدعوام ہیں یہ سب تو ہمات گلکاری ہے قرآن کریم میں جن کا جو لفظ مذکور ہے ان کے نزدیک اس سے مراد کوئی علحدہ مخلوق نہیں بلکہ انسانوں کے ان گروہوں کو جن کہا گیا ہے جو جنگلوں صحراوں پہاڑوں میں آباد ہیں دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ ویرانوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ عام آبادیوں میں وہ دکھائی نہیں دیتے تھے وں سے اوجھل رہتے ہیں اس لئے انہیں جن کہا گیا ہے اور یہی جن کا لغوی مفہوم ہے
قرآن اور جنات
قرآن میں ایک جگہ نہیں بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ قسم کی مخلوقات ہیں مثال کے طور پر ملاحظہ ہوسورت اعراف آیت نمبر ۳۸
قال ادخلوا فی امم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار کلما دخلت امت لعنت اختہا حتی اذا ادارکوا فیھا جمیعا قالت اخراھم لاولہم ربنا ھولا اضلونا فاتھم عذاباضعفا من النار قال لکل ضعف ولکن لاتعلمون
اللہ ان سے فرماتا ہے کہ تم سے پہے جو اور جماعتیں جن اور آدمیوں کی آگ میں گئیں انہیں میں جاو جب ایک گروہ داخل ہوتا ہے دوسرے پر لعنت کرتا ہے یہاں تک کہ جبسب اس میں جاپڑے تو پچھلے پہلوں کو کہیں گے اے ہمارے رب انہوں نے ہم کو بہکایاتھا تو انہیں آگ کا دونا عذاب دے فرمائے گا سب کو دونا ہے مگر تمہیں خبر نہیں

ہود۱۱۹
الا من رحم ربک ولذلک خلقہم وتمت کلمت ربک لاملئن جھنم من الجنت والناس اجمعین

حم السجدہ آیات ۲۵ ۲۹
قد خلت من قبلھم من الجن والانس انھم کانوا خسرین
جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں جنوں اور آدمیوں کے بے شک وہ زیاں کار تھے
الاحقاف ۱۸
اولئک الذین حق علیھم القول فی امم قد خلت من قبلھم من الجن والانس انہم کانو خاسرین
یہ وہ لوگ ہیں جن پر بات ثابت ہو چکی ہے ان گروہوں میں سیے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں جن و انس میں سے
الذاریت ۵۶
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
اور ہم نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری بندگی کریں
کیر سورہ رحمان تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت دیتی ہے کہ جنوں کو انسانوں کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی
سورہ بقرہ آیات30
واذ قال ربک للملئکت انی جاعل فی الارض خلیفہ
اور جب کہا تمہارے رب نے ملائکہ سے کہ بے شک میں زمین میں خلیفہ بناوں گا


اور سورہ کہف آیت ۵۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالی نے انسان کو دی ہے اور انسان جنوں سے افضل مخلوق ہیں اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتیںں جنوں کو بھی بخشی گئی ہیں جن کی ایک مثال ہمیں سورت النمل آیت نمبر ۷ میں ملتی ہے لیکن اسی طرح بعض طاقتیں حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہیں اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ جانوروں کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔
قرآن یہ بھی وتاتا ہے کہ جن انسا کی طرح ایک با اختیار مخلوق ہیں اور اس کو اطاعت و معصیت اور کفرو ایماں کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ انسان کو دیا گیا ہے اس پر ابلیس کا قصہ اور سورت احقاف اور سورت جن میں بعض جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ صریح دلالت کرتا ہے
قرآن میں بیسیوں مقامات پر یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اسی وق۳ت سے شیاطین جن انسان کو گمراہ کرنےکے درپے ہیں مگر وہ اس پر مسلط ہو کر زبردستی اس سے کوئی کام کرا لینے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں اس کو بہکاتے ہیں اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں النسائ ۱۱۷ تا ۱۲۰ الاعراف ۱۱ تا ۱۷ ابراہیم ۲۲الحجر ۳۰ تا ۴۲المحل ۹۸تا ۱۰۰ بنی اسرائیل ۶۱تا۶۵
قرآن میں یہ بھی بتا یا گیاہے کہ مسرکین عرب زمانہ جاہلیت میں جنوںکو خدا کا شرےک ٹھراتے تھے ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کا نسب خدا سے ملاتے تھے ملاحظہ ہے الانعام آیت ۱۰۰ سبا آیات ۴۔۴۱اصفت ۱۵۸
ان باتوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جن اپنا ایک مستقل خارجی وجود رکھتے ہیں اور وہ انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہیں ان کی پراسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں نے ان کی ہستی اور ان کی طاقتوں کے متعلق بڑے بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائیم کر رکھے ہیں حتی کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی گئی ہے مگرقرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہوجاتاہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں
قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنات نہ صف انسان کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بخوبی سمجھتے ہیں اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ تمام جن تمام انسانی زبانیں جانتے ہوں ممکن ہے کہ ان میں جو گرو زمیںن کے جس علاقے میں رہتے ہوں اس علاقے کے لگوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں لیکن قرآن کے اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف جنوں نے قرآن مجید کو سنا بلکہ اس کی بلاغت کو بھی محسوس کیا اور معجزانہ انداز سے متاثر بھی ہوئے دیکھیں سسورت جن آیت نمبر ۱ فقالو انا سمعنا قرآنا عجبا
 

دوست

محفلین
جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے،
انسان تو اتنا ضدی ہے کہ اس نے اللہ کو ماننے کے لیے بھی پہلے نشانی کا مطالبہ کیا۔
یہ تو پھر جن ہیں جنھیں اللہ کے بندے یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں “خلل ہے دماغ کا“ یہ خیال میں لائے بغیر کہ اللہ کی آخری کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں ان کے واقعات اور شہادتیں موجود ہیں۔
 

نعمان

محفلین
شاکر یہ کیا دلیل ہوئی کہ ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں موجود ہے؟ فرض کریں کوئی غیر مسلم آپ سے پوچھتا ہے تو آپ یہ کہہ دیں گے کہ جی قرآن اور حدیث میں ایسے بیاں ہوا ہے۔ اس سے اس کی تو کیا کسی بھی عقل مند انسان کے تجسس کی تشفی نہ ہوگی۔
 

شمشاد

لائبریرین
جنوں کا وجود ہے اور مسلمان تو کیا عیسائی بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔

آپ کو کس قسم کی دلیل چاہیے؟

یہ یاد رکھیں کہ یہ مخفی مخلوق ہے۔ نظر نہیں آتی۔ اور اس کو اللہ نے بغیر دھویں والی آگ سے تخلیق کیا ہے۔
 

نعمان

محفلین
شمشاد گویا عیسائیوں کا بھی ہم اعتقاد ہونا دلیل ٹہرا ہے؟ اور جو چیز نظر نہیں آتی جیسے مثال کے طور پر ہوا اس کا وجود بھی بذریعہ دلیل، تجربات اور ریاضیاتی طرز تفکر سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کی آیات پر مسلمانوں کا ایمان بجا لیکن ایمان دلیل تو نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ سائینس یا ریاضی کے کسی فارمولے سے جنوں کا وجود ثابت کیا جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ابھی سائینس یا ریاضی اس درجے تک نہیں پہنچے۔
 

نعمان

محفلین
تو پھر جن بھوت نہیں ہوتے۔ تاوقتیکہ انہیں ریاضی یا سائنس سے ثابت کیا جاسکے۔ ویسے ضیاالحق کے دور حکومت میں ہمارے ایک ایٹمی سائنسدان نے اس سلسلے میں ایک مقالہ اسلامی سائنس کانفرنس میں پڑھا تھا کہ جنوں کو بطور ایندھن اور توانائی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ صد افسوس کہ ان کے پاس کوئی ایسا کلیہ نہیں تھا جس سے وہ جنوں کا وجود ہی ثابت کرسکیں کجا یہ کہ سائنسی دنیا کو انہیں بطور منبع توانائی استعمال پر راغب کرسکیں۔
 

دوست

محفلین
ہر چیز کو سائنس پر پرکھنے کی کوشش مت کرو میرے عزیز۔
سائنس کیا ہے۔
چند الٹے سیدھے قیاسات کا مجموعہ۔
جن میں آئے دن تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔سائنس تو اس مادے کے ہاتھوں لاچار ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے ہم جو کچھ “دیکھتے“ ہیں ایسا ہی ہے؟؟؟؟
اب آپ یقنیًا مسکرا رہے ہونگے۔ لیکن یہ حقیقت ہے جو کچھ ہم “دیکھتے“، “سنتے“، “محسوس کرتے“ ہیں یہ صرف احساسات ہیں۔ اگر آپ ایک تتلی کو دیکھتے ہیں تو اسکا مطلب ہے آپ کی آنکھوں تک چند سگنل آرہے ہیں۔ جنھیں آپ کا دماغ صرف سمجھتا ہے۔ وہ بھی الیکڑک سگنلز کی شکل میں۔ یعنی ایک توانائی کو دوسری توانائی میں بدل کر ہمارا دماغ یہ فتوٰی صادر کردیتا ہے کہ ہاں یہ تتلی ہی ہے۔ یہ میں نہیں آپ کی سائنس ہی کہتی ہے باقاعدہ تجربات ہوچکے ہیں ایک آدمی کے دماغ کے اس حصے پر جو بصارت کو کنٹرول کرتا ہے جب بجلی کے جھٹکے دئیے گئے تو وہ بے اختیار ہر جھٹکے پر ایک تتلی کو اٹھ کر پکڑنے لپکتا تھا۔ حالانکہ وہاں کوئی تتلی نہیں تھی لیکن وہ بضد تھا کہ اسے تتلی نظر آتی ہے۔
یہ سب کیا ہے؟؟؟؟؟
ہم تو اپنے بارے ابھی تک پریقین نہیں ہیں۔ سائنس انسان کو کیوں نہیں سمجھ سکی۔ زبانیں بند اور نظریات کیوں‌ خاموش ہوجاتے ہیں جب انسان مرجاتا ہے۔ کیا ہوجاتا ہے دل بند ہوگیا ہے، پھیپھڑوں میں‌ ٹی بی ہو گئی ہے، گردے فیل ہوگئے ہیں خون زیادہ بہہ گیا ہے ۔
لیکن دل پھیپھڑے گردے اور خون کیا ہے اگر سائنس کی نظر میں دیکھیں تو سپیر پارٹس ہیں ناں جیسے گاڑی کے پرزے ہوتے ہیں۔ ان کو بدل بھی تو سکتے ہیں پھر بھی اگر شاکر عزیز کے گردے فیل ہوجائیں اور وہ فوت ہوجائے تو کیا آپ کی سائنس اس کے گردے بدل کر دوبارہ اس کی ٹانگوں پر کھڑا کردے گی؟؟ نہیں کرسکتی اس کی روح ہی نہیں۔
روح کو تو مانتے ہیں یا روح کیلیے بھی آپ کے خیال میں‌ سائنس کی دلیل چاہیے۔ روح‌ پر تو آکر سائنس بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہے۔ ہے کوئی سائسنی نظریہ میڈیکل سائنس، کیمیکل سائنس کوئی بھی سائنس کوئی سائنسدان جو یہ کہہ سکے ہاں میں بتاتا ہوں کہ اچھا بھلا انسان بغیر پٹرول کے رک جانے والی کار کی طرح رک جاتا ہے پھر دوبارہ ہمیشہ کے لیے بے کار ہوجاتا ہے۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ موت ہوچکی ہے اور ڈاکٹر بجلی کے جھٹکے لگا لگا کر مردے کو اٹھاتے ہیں لیکن کچھ بھی نہیں ہوتا جانے والا واپس نہیں آتا۔ سائنس اور سائنسدان بھی مجبور ہیں کہ ہے ہاں کوئی چیز ہے جسے روح کہتے ہیں۔ جب وضاحت مانگو تو ہاتھ کھڑے ہوجاتے ہیں روح کی تو وضاحت ہو نہیں سکی اجنہ کی وضاحت کیا کرے گی سائنس۔
تو روح کیا ہے۔ اس کا جواب پھر مڑ کھڑ کر وہیں ملتا ہے۔ اللہ کی کتاب میں۔
ترجمہ : “اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے روح میرے رب کا حکم ہے“۔
بات ختم۔ یعن جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی ( جہاں کی گدھی وہیں آکھڑی ہوئی)۔
یہی حال اجنہ کا ہے۔ وہ ہم سے الگ ہیں۔ اس لیے ہم نہیں‌جانتے۔ عام لوگوں کا، آپ کا میرا ان سے واسطہ نہیں پڑتا اس لیے ہم ان کے بارے میں نہیں جانتے۔ اگر ہم جستجو کریں تو کیا مشکل ہے کہ اجنہ کے بارے میں بھی جان جائیں لیکن، لیکن۔۔۔۔ ان کی دنیا الگ، ان کا رہن سہن الگ، ان کا کھانا پینا الگ ، ان کے معیارات الگ ہاں سوچیں ہیں، عقائد بھی ہمارے جیسے ہیں مسلمان بھی ہیں عیسائی بھی ہیں یہودی بھی ہیں، کافر بھی ہیں تو بات الگ ہونے کی ہورہی تھی جب ان کی مادی لحاظ سے ہر بات ہم سے الگ ہے تو کس طرح اپنے مروّجہ معیارات پر ان کی پرکھ کرسکتے ہیں۔
ایٹم کے بارے میں تو سائنس جانتی ہے ناں۔ ایٹم پھر اس کے ذرے نکلے جی نیوٹران پروٹان اور الیکٹرون ہوتے ہیں پھر رفتہ رفتہ یہ کہنے لگے کہ نہیں ان سے چھوتے ذرات بھی ہیں۔ کوارکس کہتے ہیں انھیں چھ اقسام ہیں۔ اپ ڈاؤن لیفٹ رائٹ قسم کے ۔ یہ کوارکس کیا ہیں؟؟؟
جی یہ روشنی ہے۔ روشنی سے بنے ہیں۔ توانائی سے۔ سائنس کہتی ہے یہ میرا ذاتی بیان نہیں بڑے معتبر ذرائع سے پڑھ چکا ہوں یہ بات۔ چلیں یہ نہیں الیکٹران کا دوہرے پن کا اصول (Principle Of Duality) تو یاد ہوگا۔ الیکٹران ذرہ بھی ہے اور توانائی بھی، توانائی بھی ہے اور ذرہ بھی۔ تو یہ روشنی یا توانائی ، یا جو کچھ بھی سائنس کہتی ہے مختصر یہ کہ ان سے ہی مادے کی تخلیق ہوئی ہے۔ اللہ کے نور کی ادنٰی ترین شکل یہ توانائی جس سے مادہ تخلیق ہوا اور اس نور سے اس نے فرشتے اور جن تخلیق کیے۔
بحث بہت لمبی ہوتی جائے گی، بے شمار دلائل ہیں بے شمار شکوک ہیں، لیکن میرے عزیز اتنا خیال رہے جو کہا جائے مان لیتے ہیں یہی حکم ہے۔ بے جا سوالات نہیں کرتے۔ غورو فکر کرنے کا حکم ہے تو یا پھر غور و فکر کریں راہیں تلاش کریں بھئی جب رب سائیں یہ کہا تو ایسا ہوگا ہم نے بس اس کو تلاشنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ ہاں بھئی یہ ہے۔ لیکن اگر غور و فکر نہیں کرنا، مادیت اور سائنس کی حدود میں‌ رہ کر سوچنا ہے، عام انسان کی مانند، زیادہ بکھیڑوں میں نہیں‌ پڑنا، اتنی استطاعت نہیں، دنیا کے جھمیلوں سے فرصت نہیں، تو پھر صرف اتنا۔ ہاں بھئی جو کہہ دیا گیا ہم نے مان لیا۔
کوئی نہیں مانتا تو ہماری بلا سے۔ بس اتنی سی بات ہے۔
ہم نا بھی مانیں گے تو کیا ہوجائے گا کچھ بھی نہیں ہوگا، وہ تو پھر بھی ہیں اور رہیں گے اسی طرح جیسے ہزاروں برسوں سے رہتے چلے آرہے ہیں۔
بھلا کافر اگر رب کو نہ مانیں تو کیا وہ موجود نہیں، کیا اللہ موجود نہیں؟؟؟
یا ہم نہیں دیکھ سکتے تو اللہ ہے ہی نہیں،
نہیں!!!!! اللہ ہے، ہم نہیں دیکھ سکتے یہ ہماری کوتاہ نظری ہے۔ وہ جلوہ دکھاتا ہے مگر کوئی موسٰی تو ہو، کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو ہو، کوئی اس کی جستجو کرنے والا تو ہو وہ اپنا آپ دکھاتا ہے۔
اسی طرح جن ہیں، لیکن کوئی صاحب نظر تو ہو، کوئی صاحب علم تو ہو،
کوئی ان معیارات کو، ان حالات کو جاننے والا تو ہو۔ اب ہر ایرے غیرے کو تو ہر علم حاصل نہیں‌ ہوجاتا۔
وسلام
 

تیشہ

محفلین
:? ادھر کیا بحث شروع ہوئی ہے ۔ جن جن اور بھوت بھوت :? :roll:

کون نہیں مان رہا کہ جن نہیں ہوتے ؟ :roll: جن ہوتے ہیں اور جو نہیں مانتے وہ شیشہ دیکھ لیں :lol: :lol: :p خود ہی یقین آجائے گا :lol: ،


جن ہوتے ہیں ،
 

الف عین

لائبریرین
میرے نانا کا ایک چشم دید واقعہ سنا دوں۔ فرماتے تھے کہ جن دنوں وہ زیر تعلیم تھے اور اپنے استاد ابو سعید علیہ الرحمۃ کے گھر ہی قیام پذیر تھے،۔ ایک رات کو حدیث نانا صاحب اور ایک اور شاگرد پڑھ رہے تھے۔ چراغ جل رہا تھا۔ نانا صاحب سونے لگے تو انھوں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ سوتے وقت چراغ گل کر دینا، کہ لالٹین جل رہی تھی۔ نانا ابھی سو بھی نہیں پائے ھے کہ انھوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھی نے اپنی جگہ پر بیٹھے ہی بیٹھے ۶ فٹ دور رکھا چراغ گل کر دیا۔ نانا گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور پوچھا کہ یہ کیا۔ ان دوست نے جواب دیا کہ نانا صاحب کسی کو بتائیں نہیں، استاد کو بھی نہیں کہ میں جن ہوں۔ ابو سعید صاحب کی تعریف سن کر ان سے دین سیکھنے آ گیا تھا۔
جاؤرہ یا گلشن آباد، ضلع رتلام مدھیہ پردیش کے مشہور مقام حسین ٹیکری پر ابو سعید اور میرے نانا مفتی احمد علی کی قبور ساتھ ساتھ ہی ہیں اگرچہ اب ان کو مزار میں تبدیل کر دیا ہے لوگوں نے۔ؒ
 
Top