شاکرالقادری
لائبریرین
جنات کیا ہیں ؟؟؟
لفظ جن لغوی بحث:
جن جمع ہے ۔ اس کا واح جنی ہے۔ جس طرح روم کا واحد رومی ہے ۔ اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
اصل الجن ستر الشیئ عن الحاسر
کسی چیز کے حواس سے پوشیدہ ہونے کو جن کہتے ہیں
انہوں نے اس مادہ سے کئی مشتقات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ان سب میں یہ معنی موجود ہے ۔ جیسے ماں کے شکم میں جو حمل ہوتا ہے اس کو جنین کہتے ہیں ۔ دل کو جنان
کہتے ہیں جو سینے میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ مجنت ڈھال کو کہتے ہیں جو انسان کو دشمن کے وار سے چھپا لیتی ہے ۔ اس لفظ کی لغوی تحقیق کے بعد علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
ان الروحانینن ثلاثت اخیار وھم الملائکت واشرار وھم الشیاطین واوساط فیھم اخیار و اشرار وھم الجن
روحانی مخلوق کی تین قسمیں ہیں ایک وہ قسم ہے جو سراپاخیر ہی خیر ہے وہ فرشتے ہیں دوسری قسم ان کی ہے سراسر شر ہی شر ہیں وہ شیاطین ہیں تیسری قسم و ہ ہے جسیں کچھ نیک اور کچھ شریر ہوتے ہیں وہ جن ہیں
علامہ ثنائ اللہ پانی پتی نے جنات کی حقیقت کے بارے میں اہل سنت کی تحقیقات کا خلاصہ ان الفاظ رقم فرمایا ہے:
الجن اجسام ذات ارواح کالحیوان عاقلت کالانسان خفیت عن اعین الناس ولذا سمیت جنا خلق من النار کما خلق آدم من طین تتصف بالذکورت والانوثت وتتوالد والظاہر ان الشیاطین منھم خلاف الملائکت فانھم لا یتصفون ابالذکلورت ولا بالانوثت ووجود الجن والشیاطین والملائکت ثابت بالشرع وانکرہ الفلاسفت
جن اجسام ہیں ان میں ارواح ہوتی ہیں جس طرح حیوان یہ انسان کی طرح عقلمند ہوتے ہیں لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ وہتے ہیں اسی لئے انہیں جن کہا جاتا ہے ان کی تخلیق آگ سے کی گئہی ہے جیسے آدم کی مٹی سے ان میںنر مادہ بھی ہیں ان کی اولاد بھی پیدا ہوتی ہے لےکن فرشنتے نر مادہ نہیں ہوتے جنات شیاطین اور ملائکہ کا وجود شریعت سے ثابت ہے
فلاسفہ اس کا انکار کرتے ہیں ہمارے متجددین جنات کے وجود سے انکار کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جنات کے بارے میں جو قصے اور واقعات زبان زدعوام ہیں یہ سب تو ہمات گلکاری ہے قرآن کریم میں جن کا جو لفظ مذکور ہے ان کے نزدیک اس سے مراد کوئی علحدہ مخلوق نہیں بلکہ انسانوں کے ان گروہوں کو جن کہا گیا ہے جو جنگلوں صحراوں پہاڑوں میں آباد ہیں دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ ویرانوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ عام آبادیوں میں وہ دکھائی نہیں دیتے تھے وں سے اوجھل رہتے ہیں اس لئے انہیں جن کہا گیا ہے اور یہی جن کا لغوی مفہوم ہے
قرآن اور جنات
قرآن میں ایک جگہ نہیں بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ قسم کی مخلوقات ہیں مثال کے طور پر ملاحظہ ہوسورت اعراف آیت نمبر ۳۸
قال ادخلوا فی امم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار کلما دخلت امت لعنت اختہا حتی اذا ادارکوا فیھا جمیعا قالت اخراھم لاولہم ربنا ھولا اضلونا فاتھم عذاباضعفا من النار قال لکل ضعف ولکن لاتعلمون
اللہ ان سے فرماتا ہے کہ تم سے پہے جو اور جماعتیں جن اور آدمیوں کی آگ میں گئیں انہیں میں جاو جب ایک گروہ داخل ہوتا ہے دوسرے پر لعنت کرتا ہے یہاں تک کہ جبسب اس میں جاپڑے تو پچھلے پہلوں کو کہیں گے اے ہمارے رب انہوں نے ہم کو بہکایاتھا تو انہیں آگ کا دونا عذاب دے فرمائے گا سب کو دونا ہے مگر تمہیں خبر نہیں
ہود۱۱۹
الا من رحم ربک ولذلک خلقہم وتمت کلمت ربک لاملئن جھنم من الجنت والناس اجمعین
حم السجدہ آیات ۲۵ ۲۹
قد خلت من قبلھم من الجن والانس انھم کانوا خسرین
جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں جنوں اور آدمیوں کے بے شک وہ زیاں کار تھے
الاحقاف ۱۸
اولئک الذین حق علیھم القول فی امم قد خلت من قبلھم من الجن والانس انہم کانو خاسرین
یہ وہ لوگ ہیں جن پر بات ثابت ہو چکی ہے ان گروہوں میں سیے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں جن و انس میں سے
الذاریت ۵۶
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
اور ہم نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری بندگی کریں
کیر سورہ رحمان تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت دیتی ہے کہ جنوں کو انسانوں کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی
سورہ بقرہ آیات30
واذ قال ربک للملئکت انی جاعل فی الارض خلیفہ
اور جب کہا تمہارے رب نے ملائکہ سے کہ بے شک میں زمین میں خلیفہ بناوں گا
اور سورہ کہف آیت ۵۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالی نے انسان کو دی ہے اور انسان جنوں سے افضل مخلوق ہیں اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتیںں جنوں کو بھی بخشی گئی ہیں جن کی ایک مثال ہمیں سورت النمل آیت نمبر ۷ میں ملتی ہے لیکن اسی طرح بعض طاقتیں حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہیں اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ جانوروں کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔
قرآن یہ بھی وتاتا ہے کہ جن انسا کی طرح ایک با اختیار مخلوق ہیں اور اس کو اطاعت و معصیت اور کفرو ایماں کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ انسان کو دیا گیا ہے اس پر ابلیس کا قصہ اور سورت احقاف اور سورت جن میں بعض جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ صریح دلالت کرتا ہے
قرآن میں بیسیوں مقامات پر یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اسی وق۳ت سے شیاطین جن انسان کو گمراہ کرنےکے درپے ہیں مگر وہ اس پر مسلط ہو کر زبردستی اس سے کوئی کام کرا لینے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں اس کو بہکاتے ہیں اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں النسائ ۱۱۷ تا ۱۲۰ الاعراف ۱۱ تا ۱۷ ابراہیم ۲۲الحجر ۳۰ تا ۴۲المحل ۹۸تا ۱۰۰ بنی اسرائیل ۶۱تا۶۵
قرآن میں یہ بھی بتا یا گیاہے کہ مسرکین عرب زمانہ جاہلیت میں جنوںکو خدا کا شرےک ٹھراتے تھے ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کا نسب خدا سے ملاتے تھے ملاحظہ ہے الانعام آیت ۱۰۰ سبا آیات ۴۔۴۱اصفت ۱۵۸
ان باتوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جن اپنا ایک مستقل خارجی وجود رکھتے ہیں اور وہ انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہیں ان کی پراسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں نے ان کی ہستی اور ان کی طاقتوں کے متعلق بڑے بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائیم کر رکھے ہیں حتی کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی گئی ہے مگرقرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہوجاتاہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں
قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنات نہ صف انسان کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بخوبی سمجھتے ہیں اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ تمام جن تمام انسانی زبانیں جانتے ہوں ممکن ہے کہ ان میں جو گرو زمیںن کے جس علاقے میں رہتے ہوں اس علاقے کے لگوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں لیکن قرآن کے اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف جنوں نے قرآن مجید کو سنا بلکہ اس کی بلاغت کو بھی محسوس کیا اور معجزانہ انداز سے متاثر بھی ہوئے دیکھیں سسورت جن آیت نمبر ۱ فقالو انا سمعنا قرآنا عجبا
لفظ جن لغوی بحث:
جن جمع ہے ۔ اس کا واح جنی ہے۔ جس طرح روم کا واحد رومی ہے ۔ اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
اصل الجن ستر الشیئ عن الحاسر
کسی چیز کے حواس سے پوشیدہ ہونے کو جن کہتے ہیں
انہوں نے اس مادہ سے کئی مشتقات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ ان سب میں یہ معنی موجود ہے ۔ جیسے ماں کے شکم میں جو حمل ہوتا ہے اس کو جنین کہتے ہیں ۔ دل کو جنان
کہتے ہیں جو سینے میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔ مجنت ڈھال کو کہتے ہیں جو انسان کو دشمن کے وار سے چھپا لیتی ہے ۔ اس لفظ کی لغوی تحقیق کے بعد علامہ راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
ان الروحانینن ثلاثت اخیار وھم الملائکت واشرار وھم الشیاطین واوساط فیھم اخیار و اشرار وھم الجن
روحانی مخلوق کی تین قسمیں ہیں ایک وہ قسم ہے جو سراپاخیر ہی خیر ہے وہ فرشتے ہیں دوسری قسم ان کی ہے سراسر شر ہی شر ہیں وہ شیاطین ہیں تیسری قسم و ہ ہے جسیں کچھ نیک اور کچھ شریر ہوتے ہیں وہ جن ہیں
علامہ ثنائ اللہ پانی پتی نے جنات کی حقیقت کے بارے میں اہل سنت کی تحقیقات کا خلاصہ ان الفاظ رقم فرمایا ہے:
الجن اجسام ذات ارواح کالحیوان عاقلت کالانسان خفیت عن اعین الناس ولذا سمیت جنا خلق من النار کما خلق آدم من طین تتصف بالذکورت والانوثت وتتوالد والظاہر ان الشیاطین منھم خلاف الملائکت فانھم لا یتصفون ابالذکلورت ولا بالانوثت ووجود الجن والشیاطین والملائکت ثابت بالشرع وانکرہ الفلاسفت
جن اجسام ہیں ان میں ارواح ہوتی ہیں جس طرح حیوان یہ انسان کی طرح عقلمند ہوتے ہیں لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ وہتے ہیں اسی لئے انہیں جن کہا جاتا ہے ان کی تخلیق آگ سے کی گئہی ہے جیسے آدم کی مٹی سے ان میںنر مادہ بھی ہیں ان کی اولاد بھی پیدا ہوتی ہے لےکن فرشنتے نر مادہ نہیں ہوتے جنات شیاطین اور ملائکہ کا وجود شریعت سے ثابت ہے
فلاسفہ اس کا انکار کرتے ہیں ہمارے متجددین جنات کے وجود سے انکار کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جنات کے بارے میں جو قصے اور واقعات زبان زدعوام ہیں یہ سب تو ہمات گلکاری ہے قرآن کریم میں جن کا جو لفظ مذکور ہے ان کے نزدیک اس سے مراد کوئی علحدہ مخلوق نہیں بلکہ انسانوں کے ان گروہوں کو جن کہا گیا ہے جو جنگلوں صحراوں پہاڑوں میں آباد ہیں دوسرے لوگوں سے الگ تھلگ ویرانوں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ عام آبادیوں میں وہ دکھائی نہیں دیتے تھے وں سے اوجھل رہتے ہیں اس لئے انہیں جن کہا گیا ہے اور یہی جن کا لغوی مفہوم ہے
قرآن اور جنات
قرآن میں ایک جگہ نہیں بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ قسم کی مخلوقات ہیں مثال کے طور پر ملاحظہ ہوسورت اعراف آیت نمبر ۳۸
قال ادخلوا فی امم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار کلما دخلت امت لعنت اختہا حتی اذا ادارکوا فیھا جمیعا قالت اخراھم لاولہم ربنا ھولا اضلونا فاتھم عذاباضعفا من النار قال لکل ضعف ولکن لاتعلمون
اللہ ان سے فرماتا ہے کہ تم سے پہے جو اور جماعتیں جن اور آدمیوں کی آگ میں گئیں انہیں میں جاو جب ایک گروہ داخل ہوتا ہے دوسرے پر لعنت کرتا ہے یہاں تک کہ جبسب اس میں جاپڑے تو پچھلے پہلوں کو کہیں گے اے ہمارے رب انہوں نے ہم کو بہکایاتھا تو انہیں آگ کا دونا عذاب دے فرمائے گا سب کو دونا ہے مگر تمہیں خبر نہیں
ہود۱۱۹
الا من رحم ربک ولذلک خلقہم وتمت کلمت ربک لاملئن جھنم من الجنت والناس اجمعین
حم السجدہ آیات ۲۵ ۲۹
قد خلت من قبلھم من الجن والانس انھم کانوا خسرین
جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں جنوں اور آدمیوں کے بے شک وہ زیاں کار تھے
الاحقاف ۱۸
اولئک الذین حق علیھم القول فی امم قد خلت من قبلھم من الجن والانس انہم کانو خاسرین
یہ وہ لوگ ہیں جن پر بات ثابت ہو چکی ہے ان گروہوں میں سیے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں جن و انس میں سے
الذاریت ۵۶
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
اور ہم نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری بندگی کریں
کیر سورہ رحمان تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت دیتی ہے کہ جنوں کو انسانوں کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی
سورہ بقرہ آیات30
واذ قال ربک للملئکت انی جاعل فی الارض خلیفہ
اور جب کہا تمہارے رب نے ملائکہ سے کہ بے شک میں زمین میں خلیفہ بناوں گا
اور سورہ کہف آیت ۵۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالی نے انسان کو دی ہے اور انسان جنوں سے افضل مخلوق ہیں اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتیںں جنوں کو بھی بخشی گئی ہیں جن کی ایک مثال ہمیں سورت النمل آیت نمبر ۷ میں ملتی ہے لیکن اسی طرح بعض طاقتیں حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہیں اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ جانوروں کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔
قرآن یہ بھی وتاتا ہے کہ جن انسا کی طرح ایک با اختیار مخلوق ہیں اور اس کو اطاعت و معصیت اور کفرو ایماں کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ انسان کو دیا گیا ہے اس پر ابلیس کا قصہ اور سورت احقاف اور سورت جن میں بعض جنوں کے ایمان لانے کا واقعہ صریح دلالت کرتا ہے
قرآن میں بیسیوں مقامات پر یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اسی وق۳ت سے شیاطین جن انسان کو گمراہ کرنےکے درپے ہیں مگر وہ اس پر مسلط ہو کر زبردستی اس سے کوئی کام کرا لینے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں اس کو بہکاتے ہیں اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں النسائ ۱۱۷ تا ۱۲۰ الاعراف ۱۱ تا ۱۷ ابراہیم ۲۲الحجر ۳۰ تا ۴۲المحل ۹۸تا ۱۰۰ بنی اسرائیل ۶۱تا۶۵
قرآن میں یہ بھی بتا یا گیاہے کہ مسرکین عرب زمانہ جاہلیت میں جنوںکو خدا کا شرےک ٹھراتے تھے ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کا نسب خدا سے ملاتے تھے ملاحظہ ہے الانعام آیت ۱۰۰ سبا آیات ۴۔۴۱اصفت ۱۵۸
ان باتوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جن اپنا ایک مستقل خارجی وجود رکھتے ہیں اور وہ انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہیں ان کی پراسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں نے ان کی ہستی اور ان کی طاقتوں کے متعلق بڑے بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائیم کر رکھے ہیں حتی کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی گئی ہے مگرقرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہوجاتاہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں
قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنات نہ صف انسان کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بخوبی سمجھتے ہیں اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ تمام جن تمام انسانی زبانیں جانتے ہوں ممکن ہے کہ ان میں جو گرو زمیںن کے جس علاقے میں رہتے ہوں اس علاقے کے لگوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں لیکن قرآن کے اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف جنوں نے قرآن مجید کو سنا بلکہ اس کی بلاغت کو بھی محسوس کیا اور معجزانہ انداز سے متاثر بھی ہوئے دیکھیں سسورت جن آیت نمبر ۱ فقالو انا سمعنا قرآنا عجبا