فرخ
محفلین
ہاں شوق سے کرومعاملے کی چھان بین۔ لیکن ایسے معاملات کو درست طور پر سمجھنے کے لیے کافی مشاہدے اور تاریخ کے مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے جو سطحی ذہن کے لوگوں میں نہیں پایا جاتا۔ جولوگ طالبان کے دفاع کی کوشش میں دہرے ہو رہے ہیں انہیں افٍغانستان کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈال لینی چاہیے۔ کیا انہوں نے افغان عوام کے ساتھ یہی ظلم روا نہیں رکھا تھا؟ جس طرح پیر سمیع اللہ کی لاش کو لٹکایا گیا تھا کیا اسی طرح نجیب اللہ کی لاش کئی دن تک نہیں لٹکتی رہی تھی؟ اور افغانستان کے کونے کونے میں طالبان عورتوں اور مردوں کو اسی طرح کی سزائیں دیتے تھے جیسے اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے، لیکن جہاں حقیقت سے رخ پھیر کر نامعلوم حقائق ڈھونڈنے کا شور مچا دیا جائے وہاں سچائی کی تلاش ہی جاری رہتی ہے۔
سطحی ذھن کے لوگوںکو صرف دور سے بیٹھ کر میڈیا کا سکھایا ہوا پروپییگنڈا ہی کافی لگتا ہے اور جیسے جیسے میڈیا رخ بدلتا ہے، وہ بھی اپنا رخ بدلتے ہیں۔
تحقیقات کے لئے صرف ٹی وی اور انٹرنیٹ کے بین الاقوامی نیوز ہی کافی نہیں ہوتی،اسکے علاوہ بھی حالات کا جائزہ لینا ہوتا ہے، جو ظاہر ہے، دور بیٹھ کر محض تنقید کرنے والے تو کبھی نہیں کر سکتے۔