سولھویں سالگرہ سید عمران بھائی کے ساتھ علمی اور معلوماتی مکالمہ

جاسم محمد

محفلین
یعنی آخرت سنوارنے کے لیے اب اسے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں؟؟؟
آپ بھی نہیں سمجھیں گے۔
بات بہت اچھے انداز میں یہاں تک پہنچی کہ دنیا و آخرت کا کوئی جدا جدا مفہوم ہی نہیں ہے.
اور میں یہ بات مانتا ہوں
زیک
دنیا میں رہ کر ہی بننا ہے نا۔۔۔ یہ تیاری کی جگہ ہے۔ اچھے اعمال کر کے نیکی کا پلڑا بھاری کرنے کی جگہ۔
کوئی دکھاوے کے لئے کرتا ہے تو اس کا اپنا عمل ہے۔ کوئی اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے تو اس سے اس کی اپنی ذات کے علاوہ بھی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ یہ سراسر انسان کا اپنا چناؤ ہے۔
ہر شخص کی زندگی کا مقصد، فلسفہ دوسرے سے الگ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ مختلف ادیان و مذاہب نے آخرت کا کانسپٹ انسان کی دنیا میں اصلاح کیلئے دیا ہے۔ کہ آخرت میں سزا کے خوف سے وہ دنیا میں نیک کام کرے۔ لیکن پھر میں یہاں ناروے میں دیکھتا ہوں کہ میرے ساتھی ملحدین و دہریے دوست یار میرے سے زیادہ نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور وہ کسی آخرت کو مانتے بھی نہیں۔ یوں ذاتی تجربہ کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ اپنی خوشی سے نیک اعمال سرانجام دینا کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے نیک اعمال بجا لانے سے بہتر ہے۔
 

انتہا

محفلین
اس کے لیے سوچ میں وسعت پیدا کرنی ہوگی۔
سوچ میں وسعت پیدا کرنا عام آدمی کے بس کی بات ہے کیا؟ یا یہ ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کا لوگ اتباع کرتے ہیں۔ اور جن کی اتباع کی جاتی ہے یا جو معاشرے پر اپنا اثر رکھتے ہیں، خود ان کی اپنی سوچ میں کس قدر وسعت ہے؟
 

انتہا

محفلین
صرف دوسرے مسلک ہی کی نہیں اپنے مسلک سے متعلق بھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو براہ راست متعلقہ شخصیت سے ہوچھیں. محض تھرڈ پارٹی کی بات سن کر فیصلے اور فتوے نہ دیں. مناظرے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی دلیل سمجھنے کے لیے مباحثے کریں.
اتنی کثیر با حوالہ تصانیف اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے جو علم و عرفان کا طوفان عوام پر برسایا جا رہا ہے، وہ کیا کم ہے کہ آدمی براہ راست کسی شخصیت کے پاس جانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ فی زمانہ دین ہی ایسی چیز رہ گیا ہے کہ ہر آدمی خود پڑھ کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے، باقی اس کے علاوہ تو جتنے بھی علوم ہیں، ان کی چاہے کتنی بھی کتابیں چھپی ہوں، جب تک ان کے ماہرین سے رجوع نہ کیا جائے بندہ خطرے میں پڑتا ہے۔
یہ ایک سوچ ہے جو ہماری بنائی گئی ہے۔
 

انتہا

محفلین
2....کیا دوسرے کا مسلک پڑھیں؟؟؟
جب کوئی اپنے راستے کی دلیلیں دے کر حق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو آدمی کی فطرت ہے اس طرف مائل ہونا۔ اور پھر بندہ متوجہ تو ہوتا ہی ہے لٹریچر کی طرف کہ سمجھے کون حق پر ہے اور کون نہیں۔
عام طور پر لٹریچر دے کر ہی داعی اپنی بات کی تکمیل کرتا ہے۔
 

انتہا

محفلین
3...آپ کی نظر میں دین کیا ہے اور دین کی وہ تعلیمات کیا ہیں جنہیں باقاعدہ مدرسہ میں جاکر پڑھنا چاہیے؟؟؟
میں کون جو یہ بتائے کی کیا دین ہے اور کیا وہ تعلیمات ہیں جنھیں مدرسے میں پڑھایا جائے۔ اپنے اردگرد سے متاثر ہونے پر کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، تو سوچا آپ سے ان پر استفادہ کیا جائے۔ کیوں کہ معتدل سوچ رکھنے والے اہل علم طبقے میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور جو بات اعتدال کی کرتے ہیں، جب حقیقت میں واسطہ پڑتا ہے تو ان میں بھی لحاظ کا فقدان ملتا ہے۔
 

انتہا

محفلین
اس سوچ کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں وہ بتائیں تاکہ اسی دائرہ میں رہ کر بات کی جائے!!!
میں کون جو یہ بتائے کی کیا دین ہے اور کیا وہ تعلیمات ہیں جنھیں مدرسے میں پڑھایا جائے۔ اپنے اردگرد سے متاثر ہونے پر کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، تو سوچا آپ سے ان پر استفادہ کیا جائے۔ کیوں کہ معتدل سوچ رکھنے والے اہل علم طبقے میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور جو بات اعتدال کی کرتے ہیں، جب حقیقت میں واسطہ پڑتا ہے تو ان میں بھی لحاظ کا فقدان ملتا ہے۔
اس کا جواب شاید اسی مراسلے میں مل سکے آپ کو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کامیابی کا تعلق ہرگز دنیا سے نہیں.
صرف اور صرف آخرت میں سرخروئی ہی کامیابی ہے. ہمیں صرف اسی پر توجہ رکھنی چاہیے. ہمیشہ قیامت آخرت کا خیال رکھنا چاہیے. کوئی کام دکھاوے کے لئے نہیں ہو.
اس کے علاوہ کچھ بھی کیا دنیا کے لئے وہ دنیا ہی میں رہ جائے گا. آخرت کے لئے جو اعمال ہوں گے ان کا صلہ وہاں ملے گا.

اس کے برعکس میں یہ کہوں گا کہ کامیابی صد فیصد دنیا ہی میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ آخرت تو محض ریٹائرمنٹ کی زندگی ہے۔
دخل در معقولات کے لیے پیشگی معذرت، لیکن ان دو نکاتِ نظر کےبیچ ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے، یہ قرآنی دعا ہے (اور مجھے بھی بہت پسند ہے) اور اس میں صرف دنیا یا آخرت کی نہیں، بلکہ دونوں جہانوں میں عافیت اور کامیابی کی دعا ہے:
رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
 

انتہا

محفلین
عالم ارواح سے لے کر جنت یا جہنم میں جانے تک سب منزلیں ہیں، لیکن ان سب منازل میں دنیا ہی ایسی جگہ ہے جہاں انسان کو اختیار حاصل ہے۔ اس کے علاوہ کسی منزل پر انسان کو کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ نہ عالم ارواح میں، نہ بطن مادر میں، نہ برزخ میں، نہ روز محشر میں اور نہ ہی جنت یا جہنم کے دخول میں۔
اس لیے دنیا کی زندگی کو بالکلیہ نظر انداز کر دینا غلط فہمی ہی ہو سکتی ہے۔ جن معنوں میں اسے دھوکا، سراب، متاع الغرور وغیرہ کہا گیا، ان پر غور کر کے ان سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک رہی بات دنیا اور آخرت کی الگ الگ کامیابی کی تو اس کا جواب تو بہت آسان ہے کہ دنیا امتحان گاہ ہے، اور موت تک انسان پیپر دیتا رہتا ہے، لیکن نتیجہ آخرت کے دن ملے گا۔
 
آخری تدوین:

انتہا

محفلین
تو زیک کی بات ان معنوں تک تو ٹھیک ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے آخری حد تک جو کوشش کی جا سکتی ہے وہ جگہ صرف دنیا ہی ہے۔
 

انتہا

محفلین
اور جہاں تک بات ریٹائرمنٹ کی زندگی کو سمجھنے کی ہے، اس کی ایک تاویل یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ دنیا میں جب آدمی اپنی مدت ملازمت کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیتا ہے تو پھر سرکار اسے کچھ کیے بغیر ہمیشہ(موت تک) اس کا انعام دیتی رہتی ہے۔ اسی طرح جو کامیاب ہو گیا آخرت میں اسے کچھ کیے بغیر اس کا انعام ہمیشہ ملتا رہے گا۔
 

انتہا

محفلین
تو پھر دنیا میں کامیابی کا مفہوم کیا ہے!؟
اس کا بہت آسان جواب یہ ہے کہ دنیا میں کامیابی کا تعلق چیز کے حصول سے نہیں بلکہ چیز کے حکم سے متعلق ہے۔ مثلا ایک شخص بزنس کرتا ہے۔ اب کیسے پتا چلے کہ وہ کامیاب ہے یا ناکام؟
وہ اس طرح کہ اگر وہ بزنس میں حکم کو پورا کرتا ہے تو وہ کامیاب ہے چاہے وہ مال و دولت، عزت و شہرت حاصل کرے یا بالکل قلاش ہو جائے۔
جب کہ دوسری صورت میں اگر وہ بزنس میں حکم کو توڑتا ہے تو وہ ناکام ہے، بالکل اسی طرح چاہے وہ مال و دولت، عزت و شہرت حاصل کرے یا بالکل قلاش ہو جائے۔
یعنی کامیابی کا ملنا کسی چیز کے ملنے یا محرومی سے نہیں بلکہ حکم کے پورا ہونے یا ٹوٹنے سے ہوا۔
ہاں اس کامیابی اور ناکامی کا نتیجہ اسے روز آخرت ملے گا۔
 

سید عمران

محفلین
سوچ میں وسعت پیدا کرنا عام آدمی کے بس کی بات ہے کیا؟ یا یہ ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کا لوگ اتباع کرتے ہیں۔ اور جن کی اتباع کی جاتی ہے یا جو معاشرے پر اپنا اثر رکھتے ہیں، خود ان کی اپنی سوچ میں کس قدر وسعت ہے؟
عوام خواص ہر سطح پر یہ کام ہونا چاہیے...
اس کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہے...
جس شخص کو اس موضوع سے متعلق مناسب معلومات ہوں اور ذہن سازی کرنے کی صلاحیت ہو وہ یہ کام کرے چاہے عام آدمی ہو یا خاص!!!
 

سید عمران

محفلین
اتنی کثیر با حوالہ تصانیف اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے جو علم و عرفان کا طوفان عوام پر برسایا جا رہا ہے، وہ کیا کم ہے کہ آدمی براہ راست کسی شخصیت کے پاس جانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ فی زمانہ دین ہی ایسی چیز رہ گیا ہے کہ ہر آدمی خود پڑھ کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے، باقی اس کے علاوہ تو جتنے بھی علوم ہیں، ان کی چاہے کتنی بھی کتابیں چھپی ہوں، جب تک ان کے ماہرین سے رجوع نہ کیا جائے بندہ خطرے میں پڑتا ہے۔
یہ ایک سوچ ہے جو ہماری بنائی گئی ہے۔
کیا اتنے علوم کی دستیابی کے باوجود یونیورسٹی جائے بغیر کوئی گھر بیٹھے ڈاکٹر یا انجینئر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن سکتا ہے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
جب کوئی اپنے راستے کی دلیلیں دے کر حق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو آدمی کی فطرت ہے اس طرف مائل ہونا۔ اور پھر بندہ متوجہ تو ہوتا ہی ہے لٹریچر کی طرف کہ سمجھے کون حق پر ہے اور کون نہیں۔
عام طور پر لٹریچر دے کر ہی داعی اپنی بات کی تکمیل کرتا ہے۔
اس کی مثال کٹی پتنگ جیسی یے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی جہاں ہوا لے جائے...
اس لیے لازم ہے کسی مستند عالم سے بنیادی علوم حاصل کرے جب علم میں رسوخ ہوجائے تو اپنے علم کی روشنی میں معتدل فیصلے کرے!!!
 

سید عمران

محفلین
میں کون جو یہ بتائے کی کیا دین ہے اور کیا وہ تعلیمات ہیں جنھیں مدرسے میں پڑھایا جائے۔ اپنے اردگرد سے متاثر ہونے پر کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، تو سوچا آپ سے ان پر استفادہ کیا جائے۔ کیوں کہ معتدل سوچ رکھنے والے اہل علم طبقے میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور جو بات اعتدال کی کرتے ہیں، جب حقیقت میں واسطہ پڑتا ہے تو ان میں بھی لحاظ کا فقدان ملتا ہے۔
یہ ساری منتشر ذہنی منزل متعین نہ کرنے کے سبب ہے...
اسی لیے عرض کیا ہے کہ اگر اس طرف ذہنی رجحان یے تو باقاعدہ کسی عالم سے بنیادی علوم سیکھ لیں...
بے شک اہل علم کی صحبتیں فائدے سے خالی نہیں لیکن اگر ذہن منتشر ہے تو پھر منظم انداز میں علم حاصل کرلیں...
جب بنیاد مضبوط ہوگی تو عمارت کی عمدگی کی ضامن ہوگی!!!
 
Top