گُلِ یاسمیں
لائبریرین
"ناتا" اور "ناتہ" دونوں طرح سے نہیں لکھا جاتا کیا؟؟؟ذرا دوبارہ دیکھ لیں جیسے آپ نے لکھا ہے کیا اس طرح لکھا جاتا ہے؟؟؟
"ناتا" اور "ناتہ" دونوں طرح سے نہیں لکھا جاتا کیا؟؟؟ذرا دوبارہ دیکھ لیں جیسے آپ نے لکھا ہے کیا اس طرح لکھا جاتا ہے؟؟؟
ناتہ غلط ہے"ناتا" اور "ناتہ" دونوں طرح سے نہیں لکھا جاتا کیا؟؟؟
جو آپ سمجھ رہی ہیں وہ ناطہ ہےسید عاطف علی بھائی۔۔۔ مدد چاہئیے ۔
یعنی آخرت سنوارنے کے لیے اب اسے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں؟؟؟
آپ بھی نہیں سمجھیں گے۔
بات بہت اچھے انداز میں یہاں تک پہنچی کہ دنیا و آخرت کا کوئی جدا جدا مفہوم ہی نہیں ہے.
اور میں یہ بات مانتا ہوں
زیک
ہر شخص کی زندگی کا مقصد، فلسفہ دوسرے سے الگ ہے۔ میرا ماننا ہے کہ مختلف ادیان و مذاہب نے آخرت کا کانسپٹ انسان کی دنیا میں اصلاح کیلئے دیا ہے۔ کہ آخرت میں سزا کے خوف سے وہ دنیا میں نیک کام کرے۔ لیکن پھر میں یہاں ناروے میں دیکھتا ہوں کہ میرے ساتھی ملحدین و دہریے دوست یار میرے سے زیادہ نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور وہ کسی آخرت کو مانتے بھی نہیں۔ یوں ذاتی تجربہ کی بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ اپنی خوشی سے نیک اعمال سرانجام دینا کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے نیک اعمال بجا لانے سے بہتر ہے۔دنیا میں رہ کر ہی بننا ہے نا۔۔۔ یہ تیاری کی جگہ ہے۔ اچھے اعمال کر کے نیکی کا پلڑا بھاری کرنے کی جگہ۔
کوئی دکھاوے کے لئے کرتا ہے تو اس کا اپنا عمل ہے۔ کوئی اللہ پاک کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے تو اس سے اس کی اپنی ذات کے علاوہ بھی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ یہ سراسر انسان کا اپنا چناؤ ہے۔
سوچ میں وسعت پیدا کرنا عام آدمی کے بس کی بات ہے کیا؟ یا یہ ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کا لوگ اتباع کرتے ہیں۔ اور جن کی اتباع کی جاتی ہے یا جو معاشرے پر اپنا اثر رکھتے ہیں، خود ان کی اپنی سوچ میں کس قدر وسعت ہے؟اس کے لیے سوچ میں وسعت پیدا کرنی ہوگی۔
اتنی کثیر با حوالہ تصانیف اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے جو علم و عرفان کا طوفان عوام پر برسایا جا رہا ہے، وہ کیا کم ہے کہ آدمی براہ راست کسی شخصیت کے پاس جانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ فی زمانہ دین ہی ایسی چیز رہ گیا ہے کہ ہر آدمی خود پڑھ کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے، باقی اس کے علاوہ تو جتنے بھی علوم ہیں، ان کی چاہے کتنی بھی کتابیں چھپی ہوں، جب تک ان کے ماہرین سے رجوع نہ کیا جائے بندہ خطرے میں پڑتا ہے۔صرف دوسرے مسلک ہی کی نہیں اپنے مسلک سے متعلق بھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو براہ راست متعلقہ شخصیت سے ہوچھیں. محض تھرڈ پارٹی کی بات سن کر فیصلے اور فتوے نہ دیں. مناظرے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی دلیل سمجھنے کے لیے مباحثے کریں.
جی نہیں! لیکن فارغین کے ساتھ ہی صحبت رہتی ہے اکثر!1....آپ بھی مدسہ سے فارغ ہیں؟؟؟
جب کوئی اپنے راستے کی دلیلیں دے کر حق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو آدمی کی فطرت ہے اس طرف مائل ہونا۔ اور پھر بندہ متوجہ تو ہوتا ہی ہے لٹریچر کی طرف کہ سمجھے کون حق پر ہے اور کون نہیں۔2....کیا دوسرے کا مسلک پڑھیں؟؟؟
میں کون جو یہ بتائے کی کیا دین ہے اور کیا وہ تعلیمات ہیں جنھیں مدرسے میں پڑھایا جائے۔ اپنے اردگرد سے متاثر ہونے پر کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، تو سوچا آپ سے ان پر استفادہ کیا جائے۔ کیوں کہ معتدل سوچ رکھنے والے اہل علم طبقے میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور جو بات اعتدال کی کرتے ہیں، جب حقیقت میں واسطہ پڑتا ہے تو ان میں بھی لحاظ کا فقدان ملتا ہے۔3...آپ کی نظر میں دین کیا ہے اور دین کی وہ تعلیمات کیا ہیں جنہیں باقاعدہ مدرسہ میں جاکر پڑھنا چاہیے؟؟؟
اس سوچ کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں وہ بتائیں تاکہ اسی دائرہ میں رہ کر بات کی جائے!!!
اس کا جواب شاید اسی مراسلے میں مل سکے آپ کو۔میں کون جو یہ بتائے کی کیا دین ہے اور کیا وہ تعلیمات ہیں جنھیں مدرسے میں پڑھایا جائے۔ اپنے اردگرد سے متاثر ہونے پر کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، تو سوچا آپ سے ان پر استفادہ کیا جائے۔ کیوں کہ معتدل سوچ رکھنے والے اہل علم طبقے میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور جو بات اعتدال کی کرتے ہیں، جب حقیقت میں واسطہ پڑتا ہے تو ان میں بھی لحاظ کا فقدان ملتا ہے۔
کامیابی کا تعلق ہرگز دنیا سے نہیں.
صرف اور صرف آخرت میں سرخروئی ہی کامیابی ہے. ہمیں صرف اسی پر توجہ رکھنی چاہیے. ہمیشہ قیامت آخرت کا خیال رکھنا چاہیے. کوئی کام دکھاوے کے لئے نہیں ہو.
اس کے علاوہ کچھ بھی کیا دنیا کے لئے وہ دنیا ہی میں رہ جائے گا. آخرت کے لئے جو اعمال ہوں گے ان کا صلہ وہاں ملے گا.
دخل در معقولات کے لیے پیشگی معذرت، لیکن ان دو نکاتِ نظر کےبیچ ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے، یہ قرآنی دعا ہے (اور مجھے بھی بہت پسند ہے) اور اس میں صرف دنیا یا آخرت کی نہیں، بلکہ دونوں جہانوں میں عافیت اور کامیابی کی دعا ہے:اس کے برعکس میں یہ کہوں گا کہ کامیابی صد فیصد دنیا ہی میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ آخرت تو محض ریٹائرمنٹ کی زندگی ہے۔
عوام خواص ہر سطح پر یہ کام ہونا چاہیے...سوچ میں وسعت پیدا کرنا عام آدمی کے بس کی بات ہے کیا؟ یا یہ ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کا لوگ اتباع کرتے ہیں۔ اور جن کی اتباع کی جاتی ہے یا جو معاشرے پر اپنا اثر رکھتے ہیں، خود ان کی اپنی سوچ میں کس قدر وسعت ہے؟
کیا اتنے علوم کی دستیابی کے باوجود یونیورسٹی جائے بغیر کوئی گھر بیٹھے ڈاکٹر یا انجینئر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن سکتا ہے؟؟؟اتنی کثیر با حوالہ تصانیف اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے جو علم و عرفان کا طوفان عوام پر برسایا جا رہا ہے، وہ کیا کم ہے کہ آدمی براہ راست کسی شخصیت کے پاس جانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ فی زمانہ دین ہی ایسی چیز رہ گیا ہے کہ ہر آدمی خود پڑھ کر نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرے، باقی اس کے علاوہ تو جتنے بھی علوم ہیں، ان کی چاہے کتنی بھی کتابیں چھپی ہوں، جب تک ان کے ماہرین سے رجوع نہ کیا جائے بندہ خطرے میں پڑتا ہے۔
یہ ایک سوچ ہے جو ہماری بنائی گئی ہے۔
اس کی مثال کٹی پتنگ جیسی یے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی جہاں ہوا لے جائے...جب کوئی اپنے راستے کی دلیلیں دے کر حق ثابت کرنے کی کوشش کرے تو آدمی کی فطرت ہے اس طرف مائل ہونا۔ اور پھر بندہ متوجہ تو ہوتا ہی ہے لٹریچر کی طرف کہ سمجھے کون حق پر ہے اور کون نہیں۔
عام طور پر لٹریچر دے کر ہی داعی اپنی بات کی تکمیل کرتا ہے۔
یہ ساری منتشر ذہنی منزل متعین نہ کرنے کے سبب ہے...میں کون جو یہ بتائے کی کیا دین ہے اور کیا وہ تعلیمات ہیں جنھیں مدرسے میں پڑھایا جائے۔ اپنے اردگرد سے متاثر ہونے پر کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، تو سوچا آپ سے ان پر استفادہ کیا جائے۔ کیوں کہ معتدل سوچ رکھنے والے اہل علم طبقے میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ اور جو بات اعتدال کی کرتے ہیں، جب حقیقت میں واسطہ پڑتا ہے تو ان میں بھی لحاظ کا فقدان ملتا ہے۔