فرقان احمد
محفلین
شکریہ!کچھ تو اتفاق فاؤنڈری اور بمبینوسنیما کی پیدوار ہیں۔ دیگر کو ضیاء الحق نے لانچ کیا تھا۔
شکریہ!کچھ تو اتفاق فاؤنڈری اور بمبینوسنیما کی پیدوار ہیں۔ دیگر کو ضیاء الحق نے لانچ کیا تھا۔
سول معاملات میں مداخلت کا ایک ذریعہ بیرونی بھی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں عوام کے نمائندہ (1) اور عوام کے حقوق کے نگہبان (2) اور عوام کی فلاح کے لیے قانون سازی(3) کرنے والے سیاست دان یا رکن پارلیمنٹ غیرملکی آرزوں اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ و ردِ عمل میں ملکی حالات دگرگوں ہوتے ہیں۔شکریہ!مقصود یہی جواب تھا۔ سیاست دانوں کی کوتاہیاں اپنی جگہ، تاہم عسکریوں کی بھی غلطیاں رہی ہیں جن کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ امید ہے، معاملات بہتری کی طرف جائیں گے، اگر سول معاملات میں زیادہ دخل اندازی نہ ہو۔ اس وقت عساکر پاکستان ملک میں بہتری لانے کے خواہش مند معلوم ہوتے ہیں، تاہم، وہ یہ تاثر پہلے بھی دیتے رہے اور بالآخر یوں ہوتا ہے کہ ان کی غیر ضروری مداخلت اور ایک حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی حالات کو پہلے سے زیادہ خراب کرنے کا باعث بنتی ہے اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خاکیان کو بھی بالآخر ان سیاست دانوں میں سے ہی 'ہیرے' تلاشنے پڑتے ہیں۔
سیاست دانوں کی کوتاہیوں یا نااہلیوں ہی سے فوج کو سیاست میں آنے کا موقع ملتا ہے۔سیاست دانوں کی کوتاہیاں اپنی جگہ، تاہم عسکریوں کی بھی غلطیاں رہی ہیں جن کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
جی ہاں! ان 'سیاست دانوں' کی کوتاہیوں سے، جو عسکری گملوں کی پیداوار ہیں۔سیاست دانوں کی کوتاہیوں یا نااہلیوں ہی سے فوج کو سیاست میں آنے کا موقع ملتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ 'سول' حکمران ضیاءالحق کی مثال پیش فرما دیتے تو تفہیم میں آسانی ہو جاتی۔سول معاملات میں مداخلت کا ایک ذریعہ بیرونی بھی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں عوام کے نمائندہ اور عوام کے حقوق کے نگہبان اور عوام کی فلاح کے لیے قانون سازی کرنے والے سیاست دان یا رکن پارلیمنٹ غیرملکی آرزوں اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ و ردِ عمل میں ملکی حالات دگرگوں ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ 'سول' حکمران ضیاءالحق کی مثال پیش فرما دیتے تو تفہیم میں آسانی ہو جاتی۔![]()
لبرل ہونا یا نہ ہونا الگ معاملہ ہے، تاہم، ایک بات طے شدہ ہے کہ یہ سیاست دان عسکریوں کی پیداوار ہیں۔دور کیوں جائیے ، حالیہ مثال لے لیجیے
خواجہ آصف امریکہ میں بیان جاری کرتے ہیں کہ وی آر مور لبرل دِن پی ٹی آئی
اور پھر اس کے بعد ملکی قوانین میں عوامی امنگوں کے مخالف ترمیم کی جاتی ہے جس کا سیر حاصل تذکرہ محفل میں ہو چکا ہے۔
سرکولر لاجکیہ سیاست دان عسکریوں کی پیداوار ہیں۔![]()
یوں کہہ لیں کہ یہ عسکریوں کی ایکسٹینشن ہیں اور ان کا سویلین چہرہ ہیں۔سرکولر لاجک
عسکری ہوں یا سیاست دانیوں کہہ لیں کہ یہ عسکریوں کی ایکسٹینشن ہیں اور ان کا سویلین چہرہ ہیں۔![]()
درست!عسکری ہوں یا سیاست دان
دونوں عوام کا چہرہ ہیں اور ملک کی عکاسی کرتے ہیں۔
1953 میں کونسے عسکری گملے تھے جو لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا یا 1958 میں جب ایوب نے پورے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔جی ہاں! ان 'سیاست دانوں' کی کوتاہیوں سے، جو عسکری گملوں کی پیداوار ہیں۔![]()
ایک مخصوص علاقے میں سول ایڈمنسٹریشن کے تحت فوج کو طلب کر کے انتہائی قدم اٹھانا الگ معاملہ ہے اور ریاست کی باگ ڈور سنبھالنا الگ ایشو ہے۔ اور آپ نے جس زمانے کی بات کی ہے، اس وقت تک تو پاکستان نے محض آنکھ ہی جھپکی ہو گی۔ یاد رہے کہ ایوب خان کے بارے میں شکوک و شبہات کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو گیا تھا۔1953 میں کونسے عسکری گملے تھے جو لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا یا 1958 میں جب ایوب نے پورے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تاریخ شاہد ہے فوج نے جب بھی مارشل لا لگایا ہے، اسکے پیچھے سول بد انتظامی، نااہلی اور ملک میں انتشار تھا۔ اگر فوجی اقتدار سے اتنی چڑ ہے تو سول سیاستدان معاملات کو اس نہج تک کیوں پہنچاتے ہیں کہ مارشل لا لگانا پڑے۔ ہرمارشل لا کے بعد حالات یکدم نارمل ہوجاتے ہیں یعنی سیاسی غیراستحکام کی وجہ سے پورا ملک داؤ پر لگا دینا سیاست دانوں کا شیوہ رہا ہے۔ جب انکو جبرا برخواست کیا جاتا ہے تووہ مظلوم بن جاتے ہیں۔ یہاں تک نوبت ہی نہیں آنی چاہئےایک مخصوص علاقے میں سول ایڈمنسٹریشن کے تحت فوج کو طلب کر کے انتہائی قدم اٹھانا الگ معاملہ ہے اور ریاست کی باگ ڈور سنبھالنا الگ ایشو ہے۔ اور آپ نے جس زمانے کی بات کی ہے، اس وقت تک تو پاکستان نے محض آنکھ ہی جھپکی ہو گی۔ یاد رہے کہ ایوب خان کے بارے میں شکوک و شبہات کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہو گیا تھا۔
یہ مذہبی انتشار اسوقت بھی ہوتے تھے اور آج کی طرح سیاست دان بے بس نظر آتےتھے۔ پھر فوج ہی آکر انکو رفع دفع کرتی تھی۔ اور آجاکر بری بھی بنتی تھی۔ جب سیاست دان افہام و تفہیم سے معاملات طے نہیں کر سکتے تو فوج کو انتشار سے روکنے کیلئے کچھ تو کرنا ہے۔اور آپ نے جس زمانے کی بات کی ہے، اس وقت تک تو پاکستان نے محض آنکھ ہی جھپکی ہو گی۔
اتنا درست تجزیہ!تاریخ شاہد ہے فوج نے جب بھی مارشل لا لگایا ہے، اسکے پیچھے سول بد انتظامی، نااہلی اور ملک میں انتشار تھا۔ اگر فوجی اقتدار سے اتنی چڑ ہے تو سول سیاستدان معاملات کو اس نہج تک کیوں پہنچاتے ہیں کہ مارشل لا لگانا پڑے۔ ہرمارشل لا کے بعد حالات یکدم نارمل ہوجاتے ہیں یعنی سیاسی غیراستحکام کی وجہ سے پورا ملک داؤ پر لگا دینا سیاست دانوں کا شیوہ رہا ہے۔ جب انکو جبرا برخواست کیا جاتا ہے تووہ مظلوم بن جاتے ہیں۔ یہاں تک نوبت ہی نہیں آنی چاہئے
جب فوج جاتی ہے تو اس کے بعد کی صورت حال کیا ہوتی ہے؟ سقوطِ ڈھاکا، کلاشنکوف کلچر، خود کش حملے۔تاریخ شاہد ہے فوج نے جب بھی مارشل لا لگایا ہے، اسکے پیچھے سول بد انتظامی، نااہلی اور ملک میں انتشار تھا۔ اگر فوجی اقتدار سے اتنی چڑ ہے تو سول سیاستدان معاملات کو اس نہج تک کیوں پہنچاتے ہیں کہ مارشل لا لگانا پڑے۔ ہرمارشل لا کے بعد حالات یکدم نارمل ہوجاتے ہیں یعنی سیاسی غیراستحکام کی وجہ سے پورا ملک داؤ پر لگا دینا سیاست دانوں کا شیوہ رہا ہے۔ جب انکو جبرا برخواست کیا جاتا ہے تووہ مظلوم بن جاتے ہیں۔ یہاں تک نوبت ہی نہیں آنی چاہئے
جی ہاں! بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ الگ بات کہ بسا اوقات یہ جتھے ان کے اپنے تشکیل کردہ ہوتے ہیں، ان کی مرضی سے متحرک ہوتے ہیں اور ان کی رضامندی سے 'منتشر' ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ یہ گروہ کہاں سے پیدا ہوئے؟ ان کو کمک کس نے فراہم کی؟ اور، یہ کس دور کی پیداوار ہیں؟یہ مذہبی انتشار اسوقت بھی ہوتے تھے اور آج کی طرح سیاست دان بے بس نظر آنے تھے۔ پھر فوج ہی آکر انکو رفع دفع کرتی تھی۔ اور آجاکر بری بھی بنتی تھی۔ جب سیاست دان افہام و تفہیم سے معاملات طے نہیں کر سکتے تو فوج کو انتشار سے روکنے کیلئے کچھ تو کرنا ہے۔
فوج کا وقتی طور پر آنا برا نہیں لیکن سالہا سال اقدار پر قابض رہنا یہ مسائل پیدا کرتا ہے۔جب فوج جاتی ہے تو اس کے بعد کی صورت حال کیا ہوتی ہے؟ سقوطِ ڈھاکا، کلاشنکوف کلچر، خود کش حملے۔تجزیے کی بنیادی غلطی یہی ہے کہ آپ نے محض ایک رخ سے صورت حال کا جائزہ لیا اور ساری ذمہ داری صرف ایک فریق پر ڈال دی ہے۔
![]()