لاہوری برگر بچے، انقلاب اور لڑکی کی لیدر جیکٹ

جاسم محمد

محفلین
ساٹھ ماہ سے پندرہ ماہ تو گزر گئے۔ صاحب! ہم نے تو اپوزیشن کے نام نہاد خود ساختہ ترجمان کی حیثیت سے محض میک اپ اتر جانے کی بات کی تھی۔ یہاں جو اعلیٰ سیاسی روایات رہی ہیں، ان کے تناظر میں ہم کچھ اور بھی تصور کر سکتے تھے۔ دیکھیے! ہم نے تو عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنے کی اپنی سی کوشش کی، جو آپ کو ناگوار گزر گئی۔
جیسے کسی طالب علم کو کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرنے کیلئے پورے ۵ گھنٹے دئے جاتے ہیں۔ اور اس دوران اس کا پرچہ بار بار ٹٹول کر نہیں دیکھا جاتا کہ ڈسٹرب ہوگا۔
ویسے ہی آپ اساتذہ سے درخواست ہے کہ طالب علم کی کج فہمی پر تنقید ضروری کریں۔ البتہ اسے اپنا پرچہ پورے انہماک سے حل کرنے کیلئے ۵ گھنٹے کا بھرپور موقع فراہم کریں۔
بار بار ٹوکنے پر بیچارہ ساتھی اسٹوڈنٹس پر برستا رہتا ہے یا بوٹی کے لئے اپنے ابو کو بلاتا ہے۔ اب اگر زیادہ تنگ کیا تو شائد احتجاجا کمرہ امتحان سے پرچے سمیت بھاگ ہی نہ جائے :)
 

فرقان احمد

محفلین
جیسے کسی طالب علم کو کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرنے کیلئے پورے ۵ گھنٹے دئے جاتے ہیں۔ اور اس دوران اس کا پرچہ بار بار ٹٹول کر نہیں دیکھا جاتا کہ ڈسٹرب ہوگا۔
ویسے ہی آپ اساتذہ سے درخواست ہے کہ طالب علم کی کج فہمی پر تنقید ضروری کریں۔ البتہ اسے اپنا پرچہ پورے انہماک سے حل کرنے کیلئے ۵ گھنٹے کا بھرپور موقع فراہم کریں۔
بار بار ٹوکنے پر بیچارہ ساتھی اسٹوڈنٹس پر برستا رہتا ہے یا بوٹی کے لئے اپنے ابو کو بلاتا ہے۔ اب اگر زیادہ تنگ کیا تو شائد احتجاجا کمرہ امتحان سے پرچے سمیت بھاگ ہی نہ جائے :)
ہمارے ہاں عموماََ تین گھنٹے ملتے ہیں اور پرچہ تو کیا، صاحبِ پرچہ تک کو ٹٹول کر ملاحظہ کیا جاتا ہے۔ بقیہ معاملات میں آپ طاق ہیں اور گمان تک نہ ہونے دیا کہ آپ نارویجین ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
سرخ سویرے کا خواب

محمد عامر خاکوانی

جب لال لال لہرائے گا،تب ہوش ٹھکانے آجائے گا، سرخ ہوگا سرخ ہوگا ایشیا سرخ ہوگا… یہ اور اس طرح کے نعرے ہم نے چند دن پہلے لاہور کے فیض امن میلے میں سنے۔انداز دلچسپ تھا، نوجوانوں کا ایک گروہ ایک نیم دائرہ سا بنا کر کھڑا ہوجاتا ، ایک لڑکا گول سے ساز (طبوقہ)پر طبلہ کے انداز میں سنگت دینے لگتا جبکہ باری باری مختلف لڑکے لڑکیاں تالیوں کی تال پر بلند آواز میں نعرے لگاتے۔فطری طور پر لوگ متوجہ ہوئے، نوجوانوں کا جوش وخروش دیدنی تھا، ان کی باہمی کیمسٹری بھی خوب تھی اور ہم آہنگی کے ساتھ وہ باری باری ایک دوسرے کو اگلے نعرہ کا اشارہ دیتے ۔جن بولوں پر زیادہ جوش دکھایا گیا وہ ناموربھارتی شاعر بسمل فیض آبادی کی مشہور غزل کے اشعار تھے … سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے باربار آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے فیض فیسٹول میںاسی گروہ کی ایک رکن عروج اورنگ زیب نے کچھ ایسے ولولے، جذب کے ساتھ یہ اشعار بار بار پڑھے کہ اس کی ویڈیو وائرل ہوگئی اور دیکھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ابتدائی تاثر یہ بنا کہ لاہور کی ایک معروف ، مہنگی نجی یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کی ایکٹوٹی ہے۔اس پر ٹھٹھے بھی لگے ، مذاق بھی اڑایا گیا کہ اتنی مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے برگر بچوں نے شوقیہ یا فیشن میں یہ سرگرمی کی ہے۔

عروج اورنگ زیب نے بلیک لیدر جیکٹ پہنی تھی، اس کا بھی مذاق اڑایا گیاکہ دس پندرہ ہزار کی لیدر جیکٹ پہن کر یہ انقلاب لانے نکلے ہیں۔اگلے چند دنوں میں ان لڑکے لڑکیوں کے کچھ انٹرویوز آئے تو بہت سی چیزیں کلیئر ہوئیں۔ دو چار چیزیں دیکھنے کا موقعہ ملا، نوجوان صحافی فرخ شہباز وڑائچ نے ان میں سے چند طلبہ کا انٹرویو کیا ، دلچسپ معلومات ملیں۔انتیس نومبر کو ان طلبہ اور ان کے دیگر ہم خیال گروپس نے مل کر ایک بڑی ایکٹوٹی کی۔ پروگریسو کلیکٹو کے پلیٹ فارم سے چھبیس کے قریب چھوٹے بڑے گروپوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں اور ایک باقاعدہ قسم کی منظم سرگرمی کی۔ طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کے حوالے سے بھی نعرے، بینر وغیرہ سامنے آئے۔ اس سب کچھ کو دیکھنے، سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ یہ صرف لمز یا اسی قبیل کی کسی یونیورسٹی کے برگرطلبہ کی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ ایسا کہنا حقائق کے منافی ہوگا۔ جو چیز جیسے ہے، ویسے ہی اسے بیان کرنا چاہیے۔فیض فیسٹول والی ایکٹوٹی میں مختلف یونیورسٹوں کے طلبہ تھے، جن میں پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے بھی موجود تھے۔ سرفروشی کی تمنا والا نعرے جوش وخروش سے لگانے والی لڑکی عروج اورنگ زیب اپنی وائرل ویڈیوز کی بنا پر خاصی مشہور ہوئیں اور
آئیکون بن گئیں۔ ان کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے۔ اب وہ فارغ التحصیل ہو کر مختلف ملازمتیں کر رہی ہے۔

ایک انٹرویو میں اسی گروپ کے ایک سرکردہ نوجوان نے بتایا کہ اس کا تعلق دیہات سے ہے اور اس کے والد کی آمدنی پندرہ ہزار ماہانہ سے زیادہ نہیں۔ان کے بعض دیگر ساتھی بھی بڑھتی ہوئی فیسوں سے نالاں نظر آئے۔ ایک لڑکی نے البتہ بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ میرے بارے میں آ پ کہہ سکتے ہیں کہ ایلیٹ کلاس سے تعلق ہے، مگر میں ذہنی اور فکری طور پر اس کلاس سے نہیں اور حقوق کی اس جنگ میں عام طلبہ کے ساتھ کھڑی ہوں۔بہت خوب۔ انگریزی محاورے کے مطابق اسے Fair Enough سمجھنا چاہیے۔ ویسے بھی لمز، بیکن ہائوس ، گرائمر سکول یا کسی بھی دوسرے نجی تعلیمی ادارے کے طلبہ پر یہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ انقلابی نعرے نہ لگائیں یا انقلابی رومانویت کا شکار نہیں ہوسکتے۔ انہی تعلیمی اداروں کے طلبہ نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی کی تحریک میں بھی حصہ لیا تھا، اس وقت ہم سب کو یہ خوشگوار لگا تھا۔ یہ خاکسار جو رائٹ ونگ سے تعلق رکھتا ہے، اپنی فیس بک پروفائل میں نظریاتی شناخت ’’رائٹ آف دی سنٹر‘‘ لکھ رکھا ہے،مگر خود کو رائٹسٹ کہلانے میں کوئی باک نہیں۔ مجھے ان نوجوانوں کا جذبہ، سرخ سویرا کا خواب، پرانے سرخوں والے نعرے اچھے لگے۔ کچے منہ سے پکی پکی باتیں سن کرعملی زندگی میں دو ڈھائی عشرے گزار چکنے والے ہم جیسے لوگ مسکراتے ہیں، مگر یہی تو زندگی ہے ۔

کسی نے کہا تھا کہ ٹین ایج میں اگر کوئی انقلابی نہیں تو اس پر تف ہے۔ اس پر دوسرے نے گرہ لگائی کہ پینتس چالیس کے بعد بھی اگر وہ انقلاب کے خواب سے نہیں نکل پایا تو تف ہے۔ کوئی انقلابی چاہے تو ان اقوال زریں کے خالق حضرات کے ساتھ بھی یہی سلوک کر سکتا ہے۔ یہ مگر زندگی کے مختلف شیڈز ہیں۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ البتہ انسان میں ماند نہیں پڑنا چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم زیادہ پختہ، عملی اور مختلف رکاوٹوں سے گریز (اعراض)کر کے آگے جانا سیکھ لیتے ہیں۔ تبدیلی کا خواب، سماج میں چیزیں بہتر کرنے کی خواہش اور کنٹری بیوٹ کرنے کا عزم ہی اخری فیصلہ کراتا ہے۔ خوشی اس پر بھی ہے کہ لیفٹ جو عرصہ دراز سے ہمارے ہاں آخری سانسیں لے رہا تھا ، اب اس میں زندگی پیدا ہونے کے امکانات تو پیدا ہوئے۔ لاطینی امریکہ میں یہ دوبارہ سے زندہ ہوا، کیپیٹل ازم کے مسکن امریکہ اور برطانیہ میں بھی اہم لیڈر لیفٹسٹ سوچ کے ساتھ نمایاں ہوئے ہیں۔پاکستانی لیفٹسٹ عرصہ ہوا سب چھوڑ چھاڑ کر امریکہ کی غلامی قبول کر چکے۔ بعض نے اپنی این جی اوز بنا لیں، جسے یہ توفیق نہ مل سکی، اس نے نوکری کر لی۔ کیپیٹل ازم کے ایجنٹ کے طور پر یہ سب پرانے سرخے خوش باش اپنی شامیں مہکاتے ہیں۔سیکولرازم کی آڑ لے رکھی ہے، اس بہانے مذہب پر طعن بھی ہوجاتا ہے اور فکری دال دلیہ بھی۔ دو نمبر سیکولرسٹوں کی جگہ کلاسیکل لیفٹ کے نظریات والے نوجوان اگر سامنے آ رہے ہیں تو یہ خوشگوار امر ہے۔

رائیٹ اور لیفٹ کی نظریاتی مسابقت نے ہمارے ہاں فکری بھونچال پیدا کیا تھا۔ بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ اب تو ایسا جمود ہے کہ سماج بدبو دار جوہڑ معلوم ہونے لگا۔کنزیومر معاشرہ پیسہ کمانے والے انسانی روبوٹ ہی پیدا کرتا ہے۔ اس لئے لیفٹ میں بیداری خوش آئند ہے۔ رائٹسٹوں کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہو سکے توکچھ معتدل رائٹسٹ ان کے جلسوں میں چکر بھی لگا آیا کریں تاکہ انقلابیوں کا مورال ہائی رہے۔ ایک بات البتہ سمجھ لینی چاہیے کہ طلبہ یونین کی بحالی ایک الگ معاملہ ہے، اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ انتیس نومبر کو طلبہ کی ریلیوں کے بعد تحریک انصاف کے بعض وزرا نے شدومد سے اس مطالبے کی حمایت کی۔ انہیں چاہیے کہ مزید کچھ کہنے سے پہلے اس معاملے کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے لیں ۔ طلبہ یونین بحال ہونی چاہیے یا نہیں، اس پر تفصیلی بحث درکار ہے۔ اس کے مثبت نکات جس قدر ہیں، ان سے دوگنا منفی باتیں بھی ہیں، جن سے پہلوتہی ممکن نہیں۔ طلبہ کے مسائل البتہ حقیقت ہیں، ان پر بات ہونی چاہیے، آواز بلند کی جائے ۔پروگریسو کلیکٹو یا دیگر ترقی پسند گروپوں کو اس حوالے سے مگر مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ نے پچھلے تین عشروں میں اپنا وجود برقرار رکھا ہے بلکہ طلبہ مسائل کے حوالے سے جدوجہد بھی کی ہے۔ جمعیت کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر طلبہ ایشوز پر رائٹ، لیفٹ سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ ایک اور بات دیکھی کہ پرانے سرخے اسے آخری مورچہ سمجھ کرنوجوانوں کی ان ایکٹویٹیز میںجوش وخروش سے شامل ہوئے ہیں۔ضرور ہوں،ان کا میدان ہے، مگراپنی وہ غلطیاں ، بلنڈر جن کی وجہ سے پاکستانی سماج نے انہیں مسترد کیا، انہیں نوجوانوں میں منتقل نہ کریں۔ پاکستانی سماج کا بنیادی فیبرک مذہب سے جڑا ہوا ہے۔اللہ کے آخری رسول ﷺ کی محبت جس میں گندھی ہے، دین کی حمیت، حیا اس تہذیب کا جوہر ہے۔ لیفٹ کے لوگوں نے ماضی میں بھی لوگوں کی مذہبی حساسیت کا اندازہ نہیں کیا تھا۔ دینی شعار کو وہ بلاوجہ نشانہ بناتے رہے، نقصان اٹھایا اور پھر مٹ ہی گئے۔ ان نوجوانوں کو مذہب اور مذہبی شعار سے ٹکرانے کے بجائے محروم طبقات کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔ یونین ازم ہر حوالے سے تقریباً ختم ہوچکا ہے۔

معلوم نہیں اس کی واپسی ہوپاتی ہے یا نہیں،مگر بہرحال اس کی بات ہونی چاہیے۔ کلاس سسٹم کو چیلنج کرنا چاہیے، مزدور، کسانوں کی بات ضرور کی جائے، انسانی حقوق کے حوالے سے بھی کوتاہی نہ برتی جائے۔ یہ احتیاط مگر ضرور کریں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تو خیر سیاسی موقف ہے، اس کی گنجائش ہے، اسے اینٹی آرمی ، اینٹی سٹیٹ کی سطح تک نہیں جانا چاہیے۔ پی ٹی ایم اور شدت پسند قوم پرست کود پڑنے، اسے ہائی جیک کرنے کو تیار ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بدنصیبی ہوگی۔اس نوزائیدہ لیفٹ کے تھنک ٹینکس کو ان تمام پہلوئوں پرمحتاط اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ خواب ضرور دیکھنے چاہئیں، سرخ سویرے کا خواب دیکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جب اس پر بات ہوگی تو مختلف پہلو کھلیں گے۔ ممکن ہے یہی نوجوان تب سرخ سے سبز کی طرف آ جائیں ۔فکر کا ارتقائی سفر جاری رہتا ہے، مگر سوچنے سمجھنے کا عمل شروع تو کیا جائے۔ سرخ سویرے کا خواب دیکھنے والوں کا خیر مقدم۔ ہم ان کے فکری مخالف ان کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ بیسٹ آف لک کامریڈز۔
 

جاسم محمد

محفلین
مشال خان کے والد اور طلبا یکجہتی مارچ کے رہنماؤں کے خلاف مقدمہ
01 د سمبر ، 2019
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
634071-1197949049.jpg

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی پولیس نے 29 نومبر جمعے کے روز مال روڈ پر ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ کے رہنماؤں پر ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔

اردو نیوز کو موصول ہونے والی ایف آئی آر میں درج تحریر کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کے سابق استاد عمار علی جان، عوامی ورکرز پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل فاروق طارق، ولی خان یونیورسٹی مردان میں مجمعے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مشال خان کے والد اقبال لالا اور عالمگیر وزیر کو اس مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔
پولیس کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ نامزد افراد نے مال روڈ پر ریلی نکالی اور ریاستی اداروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور طالبعلموں کو اکسایا ہے۔

ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 290 اور 291 کا اطلاق کیا گیا ہے جو کہ امن عامہ میں نقص ڈالنے سے متعلق ہیں۔
یہ مقدمہ لاہور کے تھانہ سول لائنز میں درج کیا گیا ہے۔

ایس پی سول لائنز دوست محمد کے مطابق مال روڈ پر کسی بھی قسم کے جلسے جلوسوں پر عدالت کی جانب سے پابندی عائد ہے اور ریلی نکالنا غیر قانونی ہے۔
ان کے مطابق جس طرح کی یہ ریلی نکالی گئی ہے اور اداروں کو نشانہ بنایا اس کی قانون بالکل بھی اجازت نہیں دیتا۔
ekisfgewkaybhyx.jfif

مشال خان کے والد کو بھی ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

عوامی ورکرز پارٹی کے سابق سیکرٹری جنرل فاروق طارق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت بائیں بازو کی جماعتوں کی عوامی پذیرائی پر بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ ریلی نکالنا ہمارا آئینی حق ہے اور کوئی اس حق کو ختم نہیں کر سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اس دن گورنر پنجاب نے فون کر کے کہا کہ وہ طلبا تنظیموں پر پابندی کے خلاف ہیں، وزرا کے ٹویٹ آئے لیکن مسئلہ اس وقت ہوا جب ان کی توقع سے زیادہ طالب علم باہر نکلے۔ اب حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ ہم ریاستی جبر کا مقابلہ کریں گے۔‘

پنجاب یونیورسٹی کے سابق استاد عمار علی جان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جن لوگوں نے پورا ملک بند کیا، دھرنے دیے، آج وہ طالب علموں کا ایک اکٹھ برداشت نہیں کر سکے۔ انہیں شرم آنی چاہیے۔‘
279a9a04-3f73-4df5-8992-046e2b21346c.jfif

طلبا نے 29 نومبر کو ملک بھر میں احتجاج کیا تھا (فوٹو: اردو نیوز

خیال رہے کہ 29 نومبر کو سٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں طالب علموں نے احتجاج کرتے ہوئے طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔

سید ذیشان
 
درست فرمایا آپ نے نے۔ یہ دراصل طبقاتی جنگ ہے۔ یہ محروموں کی آسودہ حالوں سے جنگ ہے۔ اسے لبرل اور مذہبی شدت پسندوں کی جنگ کہنا یا اسے کوئی اور نام دینا درست نہیں۔ ہاں اگر محروموں میں طلباء ، خواتین اور مذہبی اقلیتیں بھی شامل ہیں تو کیوں نہیں۔

البتہ خوشحال طبقے کے بچوں کو اپنی صفوں میں دیکھ کر بدظن نہ ہوں، یہ بھی آپ کے شانہ بہ شانہ ان طبقاتی نا انصافیوں کے خلاف جنگ لڑنے آئے ہیں۔
یہ طبقاتی جنگ عوام کے خلاف ہے، نہ کہ ان کے حق میں۔ میرا مطلب یہ تھا۔

عوام سے مراد کیا ہے؟ 83کا آئی کیو رکھنے والے،مغربی سوچ سے نامانوس، غیرت جیسی دقیانوسی چیزوں پر یقین رکھنے والے لوگ۔

آپ ایک سمجھدار اور مغرب سے ہم آہنگ انسان ہیں؛ ایک طرح کے کاگنیٹیو الیٹ۔ اس لیے میں آپ سے توقع نہیں رکھ سکتا کہ آپ عوام سے ہمدردی رکھ سکیں اور ان کے حقو ق کی پامالی کو سمجھ سکیں ۔ مثال کے طور پر آ پ نہیں سمجھیں گے کہ ڈامسٹک وایلنس کے خلاف یا قادیانیوں اور خواجہ سراؤں کے حق میں قوانین پاکستانی عوام کےلیے ہو ہی نہیں سکتے؛ بلکہ یہ ہمارے حقوق پر قبضہ کرنے جیسا ہے ۔ اگر آپ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کیا چاہتے ہیں، کچھ وقت یوٹیوب یا فیس بک کے کامنٹس پڑھنے میں صرف کریں۔

عوام شریعت چاہتے ہیں اور اس سے ہٹ کر کچھ نہیں چاہتے۔ اس راہ میں رکاوٹ بننا میرے ناقص ذہن کے مطابق عوام سے جنگ کے مترادف ہے۔ میں اپنے آپ کو عوام سمجھتا ہوں اور ہر اس بات کا ساتھ دوں گا جس سے عوام کا یہ مقصد پورا ہو سکے۔
 
دراصل ان نعروں پر تنقید کرنے والے پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل ہو گئے اور 'لیدر جیکٹ، برگر اور ممی ڈیڈی بچے' وغیرہ کہتے رہے جو کہ انہی کے لیول کی اصطلاحیں ہیں، حالانکہ شاید وہ کہنا یہ چاہتے تھے اگر یہ بورژوا کو للکار رہے ہیں تو یہ خود کہاں کے پرولتاری ہیں؟
ضروری نہیں کہ ہم کم پڑھے لکھے ہیں۔ ظاہر ہے مشرقی ہونے کے ناطے ہم مشرے قی اصطلاحیں ااستعمال کریں گے نا؟ اگر بات پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہونے پر ہوتی تو ایسا کیوں ہے کہ لمز کے بچے کبھی اسلامی اور مشرقی اسطلاحات استعمال نہیں کر سکتے؟

بھلا ایک جنوبی پنجاب کے کسی گمنام قصبے سے تعلق رکھن والے (مطلب مجھے) کیا پڑی کہ بورژوا اورپرولتاری جیسی پیچیدہ مغرب سے اد ھار لی گئی اصطلاحات سے چیزوں کا جائزہ لے، وہ چیزیں جو ویسے بھی باآسانی سمجھ آجاتی ہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
مثال کے طور پر آ پ نہیں سمجھیں گے کہ ڈامسٹک وایلنس کے خلاف یا قادیانیوں اور خواجہ سراؤں کے حق میں قوانین پاکستانی عوام کےلیے ہو ہی نہیں سکتے
کیا خواجہ سرا، قادیانی وغیرہ پاکستانی شہری نہیں؟ ان کو حقوق دینے کیلئے قانونی سازی کرنے میں کیا قباحت ہے؟ نیز اس سے دیگر اکثریتی پاکستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ کیسے پڑے گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
بھلا ایک جنوبی پنجاب کے کسی گمنام قصبے سے تعلق رکھن والے (مطلب مجھے) کیا پڑی کہ بورژوا اورپرولتاری جیسی پیچیدہ مغرب سے اد ھار لی گئی اصطلاحات سے چیزوں کا جائزہ لے، وہ چیزیں جو ویسے بھی باآسانی سمجھ آجاتی ہیں؟
یہ تمام اصلاحات کمیونسٹوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایجاد کی تھیں۔ ان کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین

پرتشدد طلباء یونینز تعلیمی ماحول تباہ کرتی ہیں، وزیراعظم
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1901837-imrankhanx-1575213690-868-640x480.jpg

طلباء یونینز کی تشکیل کے لئے جامع کوڈ آف کنڈکٹ لائیں گے ان پر سختی سے عمل درآمد بھی ہوگا، عمران خان ۔ (فوٹو : فائل)

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں طلباء یونینز پرتشدد ہو گئی ہیں اور پرتشدد طلباء یونینز کیمپس کا تعلیمی ماحول تباہ کرتی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یونیورسٹیاں ملک میں مستقبل کے رہنما تیار کرتی ہیں جب کہ طلباء تنظیمیں مستقبل کے لیڈرز بنانے میں اہم ہوتی ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں طلباء یونینز پرتشدد ہوگئی ہیں اور پرتشدد طلباء یونینز کیمپس کا تعلیمی ماحول تباہ کرتی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہم بین الاقوامی جامعات میں جاری بہترین مثالوں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک جامع اور قابلِ عمل ضابطہ اخلاق (کوڈ آف کنڈکٹ) متعارف کرائیں گے تاکہ طلبا یونین کی بحالی اور سرگرمی شروع ہو اور وہ ملک کی نوجوان نسل کو سنوارنے اور مستقبل کے رہنماؤں کی فراہم میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکے۔
 
کیا خواجہ سرا، قادیانی وغیرہ پاکستانی شہری نہیں؟ ان کو حقوق دینے کیلئے قانونی سازی کرنے میں کیا قباحت ہے؟ نیز اس سے دیگر اکثریتی پاکستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ کیسے پڑے گا؟
لمبی بحث ہے۔ فی الحال یہ سمجھ لیں کہ ان طبقات کا وجود اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
طلبہ یک جہتی مارچ: شعور و آگہی کا ایک عہد روشن ہوا چاہتا ہے
30/11/2019 سید مجاہد علی



ملک بھر کے درجنوں شہروں میں گزشتہ روز طالب علموں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے مظاہرہ کیا۔ اگرچہ ان مظاہروں کا بنیادی مقصد سٹوڈنٹ یونینز کی بحالی کہا جارہا ہے لیکن وسیع طور پر منعقد ہونے والے اس احتجاج سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ملک کی نوجوان نسل قومی معاملات میں شنوائی نہ ہونے اور عام طور سے پائی جانے والی گھٹن کے خلاف آواز بلند کررہی ہے۔ نوجوانوں کی اس آواز کو سمجھنے اور سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

اس وقت عراق، لبنان اور ہانگ کانگ میں نوجوانوں کی اسی قسم کی تحریکیں موجود ہیں جو نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان سب ملکوں میں نوجوان مظاہرین نے نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لبنان اور عراق کے وزرائے اعظم اس احتجاج کے نتیجہ میں مستعفی ہوچکے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کسی بھی تحریک کی کوئی واضح قیادت موجود نہیں ہے لیکن مسائل کی سنگینی اور ٹیکنالوجی کی دستیابی کے سبب مظاہرین کو رابطہ کرنے اور اپنی بات سامنے لانے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

پاکستان کی حکومت اور ارباب اقتدار کو بھی نوجوانوں کے احتجاج سے سبق سیکھنے اور معاملات ہاتھ سے نکلنے سے پہلے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم اندیشہ ہے کہ سیاسی گرداب میں پھنسی حکومت اور اپنے ہی نعروں کے اسیر وزیر اعظم شاید بروقت نوجوانوں کی بے چینی اور اس اضطراب کی سنگینی کو سمجھنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ یہ صورت حال وسیع المدت تناظر میں تشویشناک اور ملکی مفادات کے برعکس ہو گی۔

نوجوانوں اور بنیادی حقوق کے لئے جد و جہد کرنے والے ان لوگوں کے احتجاج کو ملک کی عمومی سیاسی صورت حال، اقتدار و اختیار کی جنگ، نفرت کے ماحول، مہنگائی اور میڈیا پر نت نئی پابندیوں کی روشنی میں بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ ہر معاشرے کو کچھ نہ کچھ مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں کثیر آبادی اور محدود وسائل کہ وجہ ان مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان مسائل کا کوئی آسان حل موجود نہیں ہوتا لیکن اگر انہیں حل کرنے کے لئے مکالمہ کا حق حاصل ہو، مختلف آرا کو سامنے لانے میں کسی دشواری کا سامنا نہ ہو اور لوگوں میں کم از کم یہ احساس موجود ہو کہ انہیں حکمرانوں کے سامنے بات کہنے اور مسائل پر رائے دینے کا موقع مل رہاہے تو مسائل کی شدت کے باوجود افہام و تفہم اور مواصلت کی صورت حال تصادم کو روکنے میں معاون ہوتی ہے۔ گزشتہ روز نوجوانوں اور شہری حقوق کے لئے سرگرم لوگوں کے احتجاج سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے پر قدغن مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ اب لوگ اس گھٹن کے ماحول کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔

پاکستان میں حکمرانی کا نظام نادیدہ قوتوں کے پاس گروی ہے۔ جمہوری حکومت پارلیمنٹ کی بجائے فوج کی اعانت اور اس کے سربراہ کی سرپرستی کو اپنی کامیابی کا بہترین راستہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے جو مباحث سامنے آئے ہیں اور حکومت نے اس پر جورویہ اختیار کیا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ریاست اپنے ایک نادرست فیصلے پر قائم رہنا چاہتی ہے اور اداروں کی خود مختاری کا نعرہ لگانے کے باوجود حکومت کو ناقصل العقل عناصر کے حوالے کردیا گیا ہے۔

ملک کے وزیر اعظم جمہوریت کی بنیادی تفہیم سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی ذاتی دیانت و ذہانت ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے کافی ہے۔ عمران خان نے چونکہ یہ طے کرلیا ہے کہ اس ملک میں صرف وہی ایماندار اور باقی سب بدعنوان ہیں لہذا وہ حکومتی اختیار کو آمرانہ طرز عمل سے برتنے پر اصرار کرتے ہیں حالانکہ یہ اختیار انہیں عوام کے منتخب نمائندوں نے قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کی صورت میں عطا کیا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کے لئے 19 اگست کو جاری ہونے والا حکم نامہ جسے وزیر اعظم نے اپنے لیٹر پیڈ پر جاری اور نشر کیا دراصل عمران خان کے ہوس اقتدار اور گھمنڈ کی بدصورت تصویر سامنے لاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پوری کابینہ اور سرکاری مشینری میں کوئی بھی وزیر اعظم کو یہ بتانے کے اہل نہیں تھا کہ آرمی چیف کی تقرری یا ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا معاملہ ایک باقاعدہ طریقہ کار کے تحت سمری کی صورت میں کابینہ سے منظور کروایا جاتا ہے، پھر صدر مملکت اس پر حکم جاری کرتے ہیں۔



لیکن 19 اگست کو وزیر اعظم کے حکم نامہ کی صورت میں جاری ہونے والا کاغذ کا یہ پرزہ دراصل عمران خان کے مزاج، ذاتی صلاحیت پر غیر ضروری اعتماد اور نظام کو غیر اہم سمجھنے کے مزاج کا شاہکار کہا جا سکتا ہے ۔ انہیں کسی سے رائے لینے یا کسی کی رائے سننے کی حاجت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظام کی اصلاح کے لئے تبدیلیاں لانا اور نظم حکومت کے اصولوں و طریقہ کار کو نظرانداز کرنا، دو مختلف باتیں ہیں۔

حکومت اور اس کے سربراہ کے اسی مزاج کی وجہ سے ایک جمہوری دور میں بھی میڈیا کو پابند کرنے اور اس پر نت نئی قدغن عائد کرنے کا طریقہ بہتر حکمرانی کے لئے ضروری سمجھا جارہا ہے۔ طالب علموں اور نوجوانوں کے احتجاج سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر اظہار کا ایک راستہ بند کیا جائے تو وہ اس کے دوسرے طریقے اختیار کرلیتا ہے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت اور ہوشمند حکمران، معاشرے میں ایسی صورت حال پیدا نہیں کرتا کہ لوگوں کو اپنی بات کہنے کے لئے سڑکوں پر نکلنا پڑے۔

پاکستان میں نہ صرف میڈیا ہاؤسز کو پابند کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ خبر، نقطہ نظر اور رائے کے اظہار پر نت نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں بلکہ ففتھ جنریشن وار کی غیر واضح اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کرنے والوں پر ملک سے غداری کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ آرمی چیف کے معاملہ پر غور کے دوران سپریم کورٹ کے ججوں کو بھی اس قسم کی الزام تراشی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے یہ اندازہ تو کیا جاسکتا ہے کہ نفرت اور کم فہمی کا ماحول اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ معاملات و حالات کی پوری تصویر دیکھنے اور انہیں مختلف پہلوؤں سے پرکھنے کا مزاج ختم ہوگیا ہے۔

ملک پر ایک ایسی پارٹی کی حکومت ہے جو اپنے ہی اصولوں، نظریات اور منشور سے انحراف کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی مدد سے چلائی جارہی ہے جن پر کل تک وزیر اعظم خود تند و تیز تنقید کیا کرتے تھے۔ یا ٹی وی مباحث میں ان پر عوام دشمنی کے فتوے صادر کرتے تھے۔ اب وہی عناصر ان کا دایاں اور بایاں بازو ہیں۔ حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے اور اس کی صفوں میں ایسا قحط الرجال ہے کہ سپریم کورٹ میں جنرل باجوہ کی وکالت کے لئے ملک کے وزیر قانون کو استعفی دینا پڑتا ہے۔

اس کے باوجود کہ سپریم کورٹ میں ان کی کارکردگی حکومت کے لئے ٹھٹھے کا سبب بنی لیکن سماعت ختم ہوتے ہی فروغ نسیم کو دوبارہ وزیر قانون بنادیا گیا۔ گویا عمران خان کی حکومت نے یہ پیغام دیا ہے کہ 22 کروڑ آبادی کے ملک میں نہ تو کوئی وکیل آرمی چیف کا مقدمہ پیش کرنے کے قابل ہے اور نہ ہی کوئی ایسا عالی دماغ موجود ہے جو فروغ نسیم کی جگہ وزارت قانون کا انتظام سنبھال سکے۔

تکبر، غیر جمہوری طریقوں، واضح پالیسی کی عدم موجودگی کے علاوہ سامنے آنے والی نا اہلی کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اگر اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور غلطیوں سے سبق سیکھنے کی فوری کوشش نہیں کرتی تو آنے والے دنوں میں ملکی معاملات میں مزید خرابی پیدا ہو گی۔ اس کا ایک امتحان تو آرمی چیف کے عہدہ کی تقرری کے بارے میں قانون سازی پر پارلیمنٹ میں ہوگا لیکن اس سے پہلے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے سوال پر حکومتی طرز عمل بھی اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا عمران خان اب بھی فوج کی طاقت کے سہارے ہی حکومت چلانا چاہتے ہیں یا یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ انہیں پارلیمنٹ میں خوشگوار ماحول پیدا کرکے، اپوزیشن کے ساتھ مواصلت کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

فی الوقت وزیر اعظم کے بیانات اور طرز عمل سے کسی قسم کی تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے وزیر اعظم کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہونے کے باوجود اپنی طرف سے تجاویز دے دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے موجودہ سربراہ 6 دسمبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ اس سے پہلے سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے ارکان مقرر کرنے کا معاملہ وزیر اعظم کے گھمنڈ اور ناقص حکمت عملی کے سبب التوا کا شکار ہے۔

طلبہ یکجہتی مارچ نے واضح کیا ہے کہ ملکی رائے عامہ غیر جمہوری طریقہ کار کے خلاف استوار ہو رہی ہے۔ متعدد مبصرین حکومت سازی اور امور مملکت میں عسکری اداروں کی مداخلت کو ایک اٹل حقیقت کے طور پر پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں کے دوران جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کے باوجود، عوامی مسائل میں جس طرح اضافہ ہؤا ہے، اس کی وجہ سے اب جمہوریت کے لئے رائے طاقت ور ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوج نے بھی براہ راست اقتدار سنبھالنے کی بجائے اپنی پراکسی پارٹی کے ذریعے حکومت چلانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ایک تو اس طریقہ کے سب خد و خال نمایاں ہوگئے ہیں۔ دوسرے تحریک انصاف جس طرح اہم شعبوں میں ڈیلور کرنے میں ناکام ہوئی ہے، اس سے اب یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اس ناکامی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

فوج اور اس کے سربراہ تادیر اس سوال کا سامنا کرنے سے گریز نہیں کرسکتے۔
 
خبر یہ ہے کہ پی ٹی ایم کا ایک دھڑا سرخ ہے سرخ ہے کا راگ الاپتے سرخوں کی اس احیائی جدوجہد کو طلبا کی بیساکھیاں استعمال کر کے ہائی جیک کرنے کی کوشش میں ہے۔
 
Top