میری ڈائری کا ایک ورق

حجاب

محفلین
نوید ملک نے کہا:
انسان کی خواہشات سے اللہ کو دلچسپی نہیں ہے وہ اُسکی تقدیر اپنی مرضی بناتا ہے۔ اسے کیا ملنا ہے کیا نہیں اسکا فیصلہ وہ خود کرتا ہے ۔جو چیز آپکو ملنی ہے آپ اسکی خواہش کریں نہ کریں ، وہ آپ کی ہی ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں جائے گی ۔مگر جو چیز آپکو نہیں ملنی وہ کسی کے پاس بھی چلی جائے گی مگر آپکے پاس نہیں آئے گی ۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جانے والی چیز کے ملال میں مبتلا رہتا ہے ، آنے والی چیز کی خوشی اسے مسرور نہیں کرتی ۔آپ محبت ضرور کریں مگر محبت کے حصول کی اتنی خواہش نہ کریں ۔ آپکے مقدر میں جو چیز ہو گی وہ آپکو مل جائے گی ۔مگر کسی خواہش کو کائی بن کر اپنے وجود پر پھیلنے مت دیں ورنہ یہ سب سے پہلے آپکے ایمان کو نگلے گی ۔پریشان ہونا ، راتوں کو جاگنا اور سرابوں کے پیچھے بھاگنے سے کسی چیز کو مقدر نہیں بنایا جا سکتا ۔

(عمیرا احمد)

بہت خوب نوید ۔کتنا سچ لکھا ہے عمیرہ احمد نے۔
 

حجاب

محفلین
[align=right:949f6103e7]میں سری لنکا کے دارلحکومت کولمبو کے ایک معبد خانے کے سامنے کھڑا اسے بنانے والے کے فن کو داد دے رہا تھا ،یہ معبد خانہ صدیوں پہلے کے انسان کی ذہانت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسی دوران ایک صحت مند بھکاری میرے نزدیک آیا ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہ سمجھ گیا کہ میں اُسے کیا کہنا چاہتا ہوں لہٰذا وہ خود بول پڑا ۔
آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں محنت کرکے کیوں نہیں کھاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے مقدّر سے نہیں لڑ سکتا کیونکہ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ۔وہ شائد فلسفیوں کے انداز میں بات کرکے مجھے متاثر کرنا چاہتا تھا۔
لگتا ہے ،آپ نے ہمارے بارے میں کچھ نہیں پڑھا ۔اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ،اُس نے بولنا شروع کردیا اور اس انداز سے بولا کہ میرے پاس خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ایک روز گوتم بدھ کے پیروکار اس کے سامنے جمع تھے اور سخت حیرت اور تذبذب کے عالم میں اُس کی جانب دیکھ رہے تھے ،گوتم بدھ نے بھی شائد زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے پیروکاروں کی آنکھوں میں اتنی حیرت، اتنی بے یقینی اور اتنی بے بسی دیکھی تھی ورنہ وہ تو اُس کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے لیکن یہ معاملہ ہی ایسا تھا کیونکہ گوتم بدھ نے تھوڑی دیر پہلے اُنہیں ایک حکم دے کر سخت تذبذب میں ڈال دیا تھا۔اُس نے کہا تھا کہ تم مہینے میں کم از کم ایک ہفتہ بھیک پر گزارہ کرو گے ،لوگوں سے مانگ کر کھاؤ گے ۔بات صرف یہیں تک محدود نہیں تھی ،گوتم بدھ نے بعض پیروکاروں کے لئے زندگی بھر بھیک مانگنا لازمی قرار دے دیا تھا۔یہ ناقابلِ فہم بات تھی ۔۔۔۔۔کیا نہیں تھی ؟؟؟؟
بھکاری نے میری طرف دیکھا اور اپنی بات کی تائید چاہی اور جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اُس نے اپنی بات پھر سے شروع کی۔
گوتم بدھ کچھ دیر تک اپنے پیروکاروں کی بےبسی اور حیرانگی کا مشاہدہ کرتا رہا،پھر بولا۔
کیا تم جانتے ہو کہ دنیا میں انسان کے لئے سب سے زیادہ تباہ کُن چیز کونسی ہے ۔“؟
بیشتر پیروکاروں نے اپنی اپنی عقل کے مطابق جواب دیئے ۔بعض نے عورت اور دولت کی ہوس کو انسان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ اقرباء پروری ،بے ایمانی، بدعنوانی اور دھوکہ دہی جیسی چیزیں بڑی سے بڑی طاقتور ریاست کو بھی تباہ کر دیتی ہیں ۔جب سب اپنی اپنی رائے کا اظہار کر چکے تو گوتم بدھ گویا ہوا ۔
آج یہ بات جان لو کہ میری تعلیم اور میرے ہر عمل کا مقصد تمہیں اسی خطرناک ترین مرض سے بچانا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے بیشتر اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔اگر بھیک مانگنے کو تم سزا سمجھتے ہو تو سمجھو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس تمہیں اس مرض سے بچانے کا واحد علاج یہی رہ گیا ہے۔
گوتم بدھ بول رہا تھا اور پیروکار خاموش تھے لیکن ابھی تک اُنہیں پیشوا سے مطلوبہ جواب نہیں ملا تھا ، وہ اب بھی نہیں سمجھ پائے تھے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے جیسی انتہائی سخت سزا اُنہیں کس پاداش میں دی گئی ہے ۔ان کی بے چینی، بے بسی اور تذبذب میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ ایک لحاظ سے گوتم بدھ نے یہ باتیں کرکے اُن کے اضطراب کو مزید بڑھا دیا تھا۔
گوتم بدھ نے توقف کیا اور کچھ دیر تک اپنے پیروکاروں کا جائزہ لیتا رہا ،پھر بولا۔
انسان کے لئے سب سے زیادہ تباہ کُن چیز اُس کے اندر چھپی ۔ میں ۔ ہے۔تم لوگ غور کرو کہ تمہاری گفتگو میں لفظ ۔ میں ۔ کا استعمال بہت بڑھ رہا ہے ۔تم لوگ ۔ انا ۔ کے سات ساتھ ۔ غرور اور تکبّر ۔ کے مرض میں مبتلا ہورہے ہو جس کا سدِّ باب کرنا ضروری ہے۔
گوتم بدھ نے اپنے اُن چند پیروکاروں کی طرف غور سے دیکھا جنہیں اُس نے تمام عمر بھیک پر گزارہ کرنے کا حکم دیا تھا ، اُن کے چہروں کا رنگ تبدیل ہوچکا تھا کیونکہ اُن میں سے بیشتر امراء اور دولت مند تھے اور اپنے دور کے سخی کہلاتے تھے۔
گوتم بدھ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر بولا، تم میں سے زیادہ تر لوگ غریبوں کی مدد کے نام پر اُن پر اپنی دولت کا رعب جماتے ہیں ۔تم اُن پر احسان کرتے ہو تاکہ وہ تمہاری فرمانبرداری کریں اور اس سے تمہاری ۔ میں ۔ کو تسکین ملتی رہے ۔ یاد رکھو جس نے اپنے اندر سے ۔ میں ۔ ختم نہیں کی اس نے خود کو ختم کرلیا اور جس نے ۔ میں ۔ ختم کردی وہ کامیاب ہو گیا۔
بھکاری نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ، میں بھی ایسے ہی لوگوں کی اولاد ہوں ، ان امیروں کی اولاد جو خود کو بہت کچھ سمجھا کرتے تھے ۔وہ میری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے جیب سے چند سکّے نکال کر اُس کے کشکول میں ڈال دئیے ۔میں سوچ رہا تھا کہ اس کا کام اور پیشہ انتہائی گھٹیا اور رذیل سہی لیکن اُس کا جواز کتنا عظیم ترین تھا ۔
وہ آگے چلا گیا لیکن وہ بلند آواز میں مسلسل پکارے جا رہا تھا ، جس نے اپنے اندر سے ۔ میں ۔ ختم نہیں کی اُس نے خود کو ختم کرلیا ، اور جس نے ۔ میں ۔ ختم کرلی وہ کامیاب ہو گیا۔
(دسترخوان کا اداریہ ریاض احمد منصوری کے قلم سے ) اچھا لگا سوچا آپ سب سے شیئر کیا جائے۔)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:949f6103e7]
 

نوید ملک

محفلین
حجاب نے کہا:
نوید ملک نے کہا:
انسان کی خواہشات سے اللہ کو دلچسپی نہیں ہے وہ اُسکی تقدیر اپنی مرضی بناتا ہے۔ اسے کیا ملنا ہے کیا نہیں اسکا فیصلہ وہ خود کرتا ہے ۔جو چیز آپکو ملنی ہے آپ اسکی خواہش کریں نہ کریں ، وہ آپ کی ہی ہے وہ کسی دوسرے کے پاس نہیں جائے گی ۔مگر جو چیز آپکو نہیں ملنی وہ کسی کے پاس بھی چلی جائے گی مگر آپکے پاس نہیں آئے گی ۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جانے والی چیز کے ملال میں مبتلا رہتا ہے ، آنے والی چیز کی خوشی اسے مسرور نہیں کرتی ۔آپ محبت ضرور کریں مگر محبت کے حصول کی اتنی خواہش نہ کریں ۔ آپکے مقدر میں جو چیز ہو گی وہ آپکو مل جائے گی ۔مگر کسی خواہش کو کائی بن کر اپنے وجود پر پھیلنے مت دیں ورنہ یہ سب سے پہلے آپکے ایمان کو نگلے گی ۔پریشان ہونا ، راتوں کو جاگنا اور سرابوں کے پیچھے بھاگنے سے کسی چیز کو مقدر نہیں بنایا جا سکتا ۔

(عمیرا احمد)

بہت خوب نوید ۔کتنا سچ لکھا ہے عمیرہ احمد نے۔

شکریہ حجاب ، جی ہاں بہت ہی عمدہ باتیں کہیں عمیرا احمد ، بہت اچھا لکھتی ہیں ۔

آپ نے بھی بہت اچھا لکھا ریاض احمد منصوری کا اداریہ ، شکریہ شئیر کرنے کا
 

حجاب

محفلین
[align=right:dc2f3f8e06]احترام۔
×××××××
صاحبو ! دعا کرو کوئی محترم نہ بنے۔
سیانے کہتے ہیں احترام ایک دیوار ہے جو محترم اور احترام کرنے والے کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہے،جو قرب پیدا نہیں ہونے دیتی۔جو خوف پیدا کرتی ہے،خوف مثبت نہیں منفی جذبہ ہے اور احترام کا جذبہ باہمی محبت کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔
مثلاً باپ بیٹے کا رشتہ لیجئے۔بیٹے پر لازم ہوتا ہے کہ وہ باپ کا احترام کرے ۔اسی وجہ سے باپ اور بیٹا کبھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے۔
ایک دانشور نے کیا خوب کہا ہے۔
اگر دو فرد پاس پاس بیٹھے ہوں لیکن ایک دوسرے سے کہنے کے لئے اُن کے پاس کوئی بات نہ ہو تو جان لیجئے کہ وہ باپ اور بیٹا ہیں۔
رشتے کے لحاظ سے اتنے قریب برتاؤ کے حوالے سے اتنے دور۔یہ جذبہء احترام کا اعجاز ہے ۔پتہ نہیں ایسے کیوں ہوا کہ باپ کو محترم بنا کر اولاد سے دور کر دیا گیا۔اس دوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ فادر ہوسٹیلیٹی Father hostillity کا جذبہ پیدا ہوا اور اس Love hate تعلق کی وجہ سے آج جنریشن گیپ کا مسئلہ وجود میں آیا ہے۔
آج کے نوجوانوں پر نکتہ چینی کرو تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ سارا قصور بڑوں کا ہے ۔اُنہوں نے ہماری تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کی، بڑوں نے ہمیں حقیر جانا ۔ہمیں بولنے نہیں دیا۔ہمارے دلوں میں خوف کے جالے تن دیئے ۔ چھوٹے سچ کہتے ہیں واقعی ہم نے اُنہیں بولنے نہیں دیا ، جب بھی اُنہوں نے کچھ کہنا چاہا ہم نے اُنہیں، ہشت ، بڑوں کے سامنے بولتا ہے ، کہہ کر چُپ کروا دیا ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ساری چالاکی ماں کی ہے۔ماں کی Lust for possession اس قدر شدید ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ بچّے باپ کے قریب ہوں اس لئے کہ اگر باپ کے قریب ہو گئے تو ماں سے دور ہو جائیں گے ۔اس لئے وہ ایسا طریقِ کار اپناتی ہے کہ بچّے باپ سے ڈریں اُس کے قریب نہ جائیں۔
ہمارے معاشرے میں ماں بچّوں کو باپ سے ڈراتی رہتی ہے ۔
نہ نہ نہ ۔ ایسا نہ کرو بیٹا ۔ اگر ابّا کو پتہ چل گیا تو پِٹ جاؤ گے۔
میں تمہارے ابّو کو بتادوں گی کہ تم نے اُس روز جھوٹ بولا تھا۔
خاموش ! ابّو آ رہے ہیں۔
ہمارے گھروں میں ایسے جملے عام سُنائی دیتے ہیں۔
بچّے سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنا برا نہیں ۔بس ابّو کو پتہ نہ چلے ماں کے سامنے چاہے دنگا فساد کرو ۔ لیکن ابّو کے سامنے نہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچّے سمجھتے ہیں کہ باقی سب ٹھیک ہے لیکن ابّو بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
ماں بچّوں کو خبردار کرتی رہتی ہے کہ ابّو کا احترام لازم ہے ۔وہ یہ کبھی نہیں کہتی کہ میرا احترام کرو۔مجھ سے ڈرو۔ وہ بچّوں کے دلوں میں اپنے لئے محبت کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور باپ کے لئے خوف کا۔
ایک مغربی مزاح نگار نے ایک کتاب لکھی ، نام تھا ۔They and I نام پر میں حیران ہوا۔یا اللہ یہ کیسی کتاب ہے۔اس کا موضوع کیا ہوگا۔
پڑھ کر پتہ چلا کہ گھر کے موضوع پر ہے ۔مصنف کا کہنا تھا کہ گھر ایک یونٹ نہیں ہوتا بلکہ دو یونٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایک جانب ماں اور بچّے اور دوسری جانب باپ اکیلا۔ دے اینڈ آئی۔
یہ افراق و تفریق احترام کی وجہ سے ہوتی ہے۔ماں بچّوں کو باپ سے ڈراتی رہتی ہے، باپ سمجھتا ہے کہ میرا احترام ہورہا ہے۔مجھے ماسٹر آف دی ہاؤس کا منصب مل رہا ہے۔
باپ کا شاون اِزم تسکین پاتا رہتا ہے۔اُسے شعور نہیں ہوتا کہ جذبہء احترام نیچے ہی نیچے محبت کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔
دوستو ! باپ بڑی کی معصوم اور احمق مخلوق ہے۔
ممتاز مُفتی کے مضمون ، احترام ۔ سے لیا گیا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:dc2f3f8e06]
 

دوست

محفلین
یہ بھی عجیب بندہ ہے۔ اپنی اسی منطق کو اپنے بیٹے عکسی پر لاگو کیا۔ اسے بیٹا نہیں دوست بنا لیا۔ پھر اپنی کتابوں میں ہی روتا ہے کہ میرا بیٹا اب کہتا ہے کہ تم نے مجھے میرے ہم عمروں میں رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
مفتی کی یہ منطق میرے حساب سے کچھ ٹھیک نہیں کیونکہ اس کا اپنا تجربہ ناکام ثابت ہوگیا۔
بہرحال اچھا اقتباس متخب کیا آپ نے۔
 

سارہ خان

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:5bc3e0ac5c]میں سری لنکا کے دارلحکومت کولمبو کے ایک معبد خانے کے سامنے کھڑا اسے بنانے والے کے فن کو داد دے رہا تھا ،یہ معبد خانہ صدیوں پہلے کے انسان کی ذہانت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسی دوران ایک صحت مند بھکاری میرے نزدیک آیا ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہ سمجھ گیا کہ میں اُسے کیا کہنا چاہتا ہوں لہٰذا وہ خود بول پڑا ۔
آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں محنت کرکے کیوں نہیں کھاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے مقدّر سے نہیں لڑ سکتا کیونکہ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ۔وہ شائد فلسفیوں کے انداز میں بات کرکے مجھے متاثر کرنا چاہتا تھا۔
لگتا ہے ،آپ نے ہمارے بارے میں کچھ نہیں پڑھا ۔اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ،اُس نے بولنا شروع کردیا اور اس انداز سے بولا کہ میرے پاس خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ایک روز گوتم بدھ کے پیروکار اس کے سامنے جمع تھے اور سخت حیرت اور تذبذب کے عالم میں اُس کی جانب دیکھ رہے تھے ،گوتم بدھ نے بھی شائد زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے پیروکاروں کی آنکھوں میں اتنی حیرت، اتنی بے یقینی اور اتنی بے بسی دیکھی تھی ورنہ وہ تو اُس کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے لیکن یہ معاملہ ہی ایسا تھا کیونکہ گوتم بدھ نے تھوڑی دیر پہلے اُنہیں ایک حکم دے کر سخت تذبذب میں ڈال دیا تھا۔اُس نے کہا تھا کہ تم مہینے میں کم از کم ایک ہفتہ بھیک پر گزارہ کرو گے ،لوگوں سے مانگ کر کھاؤ گے ۔بات صرف یہیں تک محدود نہیں تھی ،گوتم بدھ نے بعض پیروکاروں کے لئے زندگی بھر بھیک مانگنا لازمی قرار دے دیا تھا۔یہ ناقابلِ فہم بات تھی ۔۔۔۔۔کیا نہیں تھی ؟؟؟؟
بھکاری نے میری طرف دیکھا اور اپنی بات کی تائید چاہی اور جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اُس نے اپنی بات پھر سے شروع کی۔
گوتم بدھ کچھ دیر تک اپنے پیروکاروں کی بےبسی اور حیرانگی کا مشاہدہ کرتا رہا،پھر بولا۔
کیا تم جانتے ہو کہ دنیا میں انسان کے لئے سب سے زیادہ تباہ کُن چیز کونسی ہے ۔“؟
بیشتر پیروکاروں نے اپنی اپنی عقل کے مطابق جواب دیئے ۔بعض نے عورت اور دولت کی ہوس کو انسان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ اقرباء پروری ،بے ایمانی، بدعنوانی اور دھوکہ دہی جیسی چیزیں بڑی سے بڑی طاقتور ریاست کو بھی تباہ کر دیتی ہیں ۔جب سب اپنی اپنی رائے کا اظہار کر چکے تو گوتم بدھ گویا ہوا ۔
آج یہ بات جان لو کہ میری تعلیم اور میرے ہر عمل کا مقصد تمہیں اسی خطرناک ترین مرض سے بچانا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے بیشتر اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔اگر بھیک مانگنے کو تم سزا سمجھتے ہو تو سمجھو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس تمہیں اس مرض سے بچانے کا واحد علاج یہی رہ گیا ہے۔
گوتم بدھ بول رہا تھا اور پیروکار خاموش تھے لیکن ابھی تک اُنہیں پیشوا سے مطلوبہ جواب نہیں ملا تھا ، وہ اب بھی نہیں سمجھ پائے تھے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے جیسی انتہائی سخت سزا اُنہیں کس پاداش میں دی گئی ہے ۔ان کی بے چینی، بے بسی اور تذبذب میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ ایک لحاظ سے گوتم بدھ نے یہ باتیں کرکے اُن کے اضطراب کو مزید بڑھا دیا تھا۔
گوتم بدھ نے توقف کیا اور کچھ دیر تک اپنے پیروکاروں کا جائزہ لیتا رہا ،پھر بولا۔
انسان کے لئے سب سے زیادہ تباہ کُن چیز اُس کے اندر چھپی ۔ میں ۔ ہے۔تم لوگ غور کرو کہ تمہاری گفتگو میں لفظ ۔ میں ۔ کا استعمال بہت بڑھ رہا ہے ۔تم لوگ ۔ انا ۔ کے سات ساتھ ۔ غرور اور تکبّر ۔ کے مرض میں مبتلا ہورہے ہو جس کا سدِّ باب کرنا ضروری ہے۔
گوتم بدھ نے اپنے اُن چند پیروکاروں کی طرف غور سے دیکھا جنہیں اُس نے تمام عمر بھیک پر گزارہ کرنے کا حکم دیا تھا ، اُن کے چہروں کا رنگ تبدیل ہوچکا تھا کیونکہ اُن میں سے بیشتر امراء اور دولت مند تھے اور اپنے دور کے سخی کہلاتے تھے۔
گوتم بدھ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر بولا، تم میں سے زیادہ تر لوگ غریبوں کی مدد کے نام پر اُن پر اپنی دولت کا رعب جماتے ہیں ۔تم اُن پر احسان کرتے ہو تاکہ وہ تمہاری فرمانبرداری کریں اور اس سے تمہاری ۔ میں ۔ کو تسکین ملتی رہے ۔ یاد رکھو جس نے اپنے اندر سے ۔ میں ۔ ختم نہیں کی اس نے خود کو ختم کرلیا اور جس نے ۔ میں ۔ ختم کردی وہ کامیاب ہو گیا۔
بھکاری نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ، میں بھی ایسے ہی لوگوں کی اولاد ہوں ، ان امیروں کی اولاد جو خود کو بہت کچھ سمجھا کرتے تھے ۔وہ میری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے جیب سے چند سکّے نکال کر اُس کے کشکول میں ڈال دئیے ۔میں سوچ رہا تھا کہ اس کا کام اور پیشہ انتہائی گھٹیا اور رذیل سہی لیکن اُس کا جواز کتنا عظیم ترین تھا ۔
وہ آگے چلا گیا لیکن وہ بلند آواز میں مسلسل پکارے جا رہا تھا ، جس نے اپنے اندر سے ۔ میں ۔ ختم نہیں کی اُس نے خود کو ختم کرلیا ، اور جس نے ۔ میں ۔ ختم کرلی وہ کامیاب ہو گیا۔
(دسترخوان کا اداریہ ریاض احمد منصوری کے قلم سے ) اچھا لگا سوچا آپ سب سے شیئر کیا جائے۔)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:5bc3e0ac5c]

بہت خوب حجاب ۔۔ بہت اچھی نصیحت ہے ۔۔۔ :)
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:161c4ba146]احترام۔
×××××××
صاحبو ! دعا کرو کوئی محترم نہ بنے۔
سیانے کہتے ہیں احترام ایک دیوار ہے جو محترم اور احترام کرنے والے کے درمیان کھڑی ہوجاتی ہے،جو قرب پیدا نہیں ہونے دیتی۔جو خوف پیدا کرتی ہے،خوف مثبت نہیں منفی جذبہ ہے اور احترام کا جذبہ باہمی محبت کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔
مثلاً باپ بیٹے کا رشتہ لیجئے۔بیٹے پر لازم ہوتا ہے کہ وہ باپ کا احترام کرے ۔اسی وجہ سے باپ اور بیٹا کبھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے۔
ایک دانشور نے کیا خوب کہا ہے۔
اگر دو فرد پاس پاس بیٹھے ہوں لیکن ایک دوسرے سے کہنے کے لئے اُن کے پاس کوئی بات نہ ہو تو جان لیجئے کہ وہ باپ اور بیٹا ہیں۔
رشتے کے لحاظ سے اتنے قریب برتاؤ کے حوالے سے اتنے دور۔یہ جذبہء احترام کا اعجاز ہے ۔پتہ نہیں ایسے کیوں ہوا کہ باپ کو محترم بنا کر اولاد سے دور کر دیا گیا۔اس دوری کا نتیجہ یہ ہوا کہ فادر ہوسٹیلیٹی Father hostillity کا جذبہ پیدا ہوا اور اس Love hate تعلق کی وجہ سے آج جنریشن گیپ کا مسئلہ وجود میں آیا ہے۔
آج کے نوجوانوں پر نکتہ چینی کرو تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ سارا قصور بڑوں کا ہے ۔اُنہوں نے ہماری تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کی، بڑوں نے ہمیں حقیر جانا ۔ہمیں بولنے نہیں دیا۔ہمارے دلوں میں خوف کے جالے تن دیئے ۔ چھوٹے سچ کہتے ہیں واقعی ہم نے اُنہیں بولنے نہیں دیا ، جب بھی اُنہوں نے کچھ کہنا چاہا ہم نے اُنہیں، ہشت ، بڑوں کے سامنے بولتا ہے ، کہہ کر چُپ کروا دیا ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ساری چالاکی ماں کی ہے۔ماں کی Lust for possession اس قدر شدید ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ بچّے باپ کے قریب ہوں اس لئے کہ اگر باپ کے قریب ہو گئے تو ماں سے دور ہو جائیں گے ۔اس لئے وہ ایسا طریقِ کار اپناتی ہے کہ بچّے باپ سے ڈریں اُس کے قریب نہ جائیں۔
ہمارے معاشرے میں ماں بچّوں کو باپ سے ڈراتی رہتی ہے ۔
نہ نہ نہ ۔ ایسا نہ کرو بیٹا ۔ اگر ابّا کو پتہ چل گیا تو پِٹ جاؤ گے۔
میں تمہارے ابّو کو بتادوں گی کہ تم نے اُس روز جھوٹ بولا تھا۔
خاموش ! ابّو آ رہے ہیں۔
ہمارے گھروں میں ایسے جملے عام سُنائی دیتے ہیں۔
بچّے سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنا برا نہیں ۔بس ابّو کو پتہ نہ چلے ماں کے سامنے چاہے دنگا فساد کرو ۔ لیکن ابّو کے سامنے نہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچّے سمجھتے ہیں کہ باقی سب ٹھیک ہے لیکن ابّو بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
ماں بچّوں کو خبردار کرتی رہتی ہے کہ ابّو کا احترام لازم ہے ۔وہ یہ کبھی نہیں کہتی کہ میرا احترام کرو۔مجھ سے ڈرو۔ وہ بچّوں کے دلوں میں اپنے لئے محبت کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور باپ کے لئے خوف کا۔
ایک مغربی مزاح نگار نے ایک کتاب لکھی ، نام تھا ۔They and I نام پر میں حیران ہوا۔یا اللہ یہ کیسی کتاب ہے۔اس کا موضوع کیا ہوگا۔
پڑھ کر پتہ چلا کہ گھر کے موضوع پر ہے ۔مصنف کا کہنا تھا کہ گھر ایک یونٹ نہیں ہوتا بلکہ دو یونٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایک جانب ماں اور بچّے اور دوسری جانب باپ اکیلا۔ دے اینڈ آئی۔
یہ افراق و تفریق احترام کی وجہ سے ہوتی ہے۔ماں بچّوں کو باپ سے ڈراتی رہتی ہے، باپ سمجھتا ہے کہ میرا احترام ہورہا ہے۔مجھے ماسٹر آف دی ہاؤس کا منصب مل رہا ہے۔
باپ کا شاون اِزم تسکین پاتا رہتا ہے۔اُسے شعور نہیں ہوتا کہ جذبہء احترام نیچے ہی نیچے محبت کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔
دوستو ! باپ بڑی کی معصوم اور احمق مخلوق ہے۔
ممتاز مُفتی کے مضمون ، احترام ۔ سے لیا گیا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:161c4ba146]

اچھا ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
ایک بار جبران نے کہا

“ فرض کرو، تم ہر چیز سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دی جاؤ اور تمھیں سوائے سات الفاظ کے سب کچھ بھلانا پڑ جائے، تو تمھارے وہ سات الفاظ کیا ہونگے۔ جن کا تم انتخاب کروگی؟“۔
میں نے سوچا اور بس پانچ الفاظ بتا سکی جو یہ تھے
“ اللہ، زندگی، محبت، حُسن، زمین “۔
اور میں نے پھر جبران کی طرف دیکھ کر کہا
“ باقی دو الفاظ کیا ہو سکتے ہیں ؟“۔
تب اس نے کہا کہ باقی دو اہم الفاظ ہیں
“ میں اور تم “
 

عمر سیف

محفلین
ظاہری شخصیت

“ یہ بات طے ہے کہ انسان کی پہلی خوبی اس کی ظاہری شخصیت اس لیے شمار ہوتی ہے کہ اور خوبیوں کی نسبت اس خوبی کا ادراک ایک عام ذہن اور ایک سادہ سی نظر بھی کر لیتی ہے۔ خوبصورت چیزوں کی سراہنے کے لیے دماغی صلاحتیوں کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ایک سادہ نگاہ بھی حُسن کو پرکھ لیتی ہے۔
اور ایک عام شخص جتنا اچھا دیکھ سکتا ہے اتنا اچھا سوچ نہیں سکتا، اور ہمارا پورا معاشرہ عام دماغوں سے بھرا پڑا ہے، اچھے دماغوں سے نہیں۔اسی لیے انسان کی خوبی اس کی ظاہری شخصیت شمار ہوتی ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
جس نے محبّت کی ہو وہ محبّت کرنے والوں کے تمام زادِراہ سے واقف ہوتا ہے۔۔۔خوش اُمیدی۔۔۔امکان۔۔۔گُمان ویقین۔۔۔۔وصل۔۔۔یا پھر نارسائی کا درد، جُدائی کے آنسُو،سوزوغم۔۔۔۔تڑپ اور پھر بے تحاشہ صبر۔۔۔یہی زادِراہ ہوتا ہے محبّت کے ماروں کا۔۔۔۔لیکن لڑکوں کی محبّت اور لڑکیوں کی محبّت میں واضح فرق ہوتا ہے۔۔۔مرد اپنی محبّت کے لیے جدّوجہد کرتا ہے متعلقین سے بلا جھجھک اپنا مدّعا بیان کر سکتا ہے۔۔قسمت اچھی ہو تووصل کے گلاب مٹھی میں مہک اُٹھتے ہیں جبکہ لڑکیاں۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔
ہمارے یہاں ساٹھ فیصد لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔۔جنہیں محبّت تو ہو جاتی ہے، لیکن اپنے پیاروں کی عزّت و محبّت، معاشرتی روایات کی پیروی۔۔رُسوائی کا خوف ایسی کئی مجبوریاں ان کے گرد مجبوری بن جاتی ہیں۔۔۔جنہیں عام طور سے طعنہ بنا دیا جاتا ہے کہ محبّت کسی اور سے کی اور شادی کسی اور سے۔۔۔کوئی ان لڑکیوں کے دلوں میں جھانک کر تو دیکھے۔۔۔کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔۔۔۔محبّت وصولنے کی خواہش کوئی انہونی نہیں ہے،خواہشوں کا ہمزاد ہر لمحے ہمارے ساتھ ہوتا ہے، اس ہمزاد کو قابو کرنے کا ہنر آنا چاہئے۔۔۔محبّت کے دو ہی رُخ ہوتے ہیں۔۔۔خواہشوں کی بے لگام یلغار ساتھ لے کر چلیں تو اس میں ذات کا نقصان اور بگاڑ پوشیدہ ہے۔۔۔دوسرے رُخ کو ہر زاویہ نگاہ سے سوچنے اور پرکھنے پر آگہی دان ہوتی ہے۔۔صبر کی کئی منزلیں دل میں قیام پذیر ہوتی ہیں۔۔۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جب محبّت دائمی ہونے کا فخر حاصل کرتی ہے۔۔۔۔یوں بھی تو ہوتا ہے کہ ذات پر وصل کا پانی برسنے سے محبّت کے چراغ گُل ہونے لگتے ہیں۔۔نام تو محبّت ہوتا ہے ،حنظل کی طرح کڑوی ہوجاتی ہےیہ۔۔ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا لبوں پرتلخیوں کے خار اُگنے لگتے ہیں۔۔۔شعوری کوشش سے یاد دہانی کروانی پڑتی ہے کہ کبھی ہم میں محبّت تھی۔۔اندھیرا بڑھتا ہی جائے تو محبّت اپنے ہونے پر مشتبہ ہو جاتی ہے۔۔سو محبّت کو دائم رکھنے کے لیے اس کی شیرینی کو محسوس کرنے کے لیے تھوڑا سا ہجر جھیل لیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں، آخر کو زندگی اتنی طویل تو نہیں۔ فانی شئے کا کیا بھروسہ۔بہت کچھ خود سے فرض کر لینے سے بھی ہمیں صبر آجاتا ہے ہان جس شخص کی کمی ہمیں محسوس ہوتی ہے اُس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا
 
Top