[align=right:949f6103e7]میں سری لنکا کے دارلحکومت کولمبو کے ایک معبد خانے کے سامنے کھڑا اسے بنانے والے کے فن کو داد دے رہا تھا ،یہ معبد خانہ صدیوں پہلے کے انسان کی ذہانت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسی دوران ایک صحت مند بھکاری میرے نزدیک آیا ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا وہ سمجھ گیا کہ میں اُسے کیا کہنا چاہتا ہوں لہٰذا وہ خود بول پڑا ۔
آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں محنت کرکے کیوں نہیں کھاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے مقدّر سے نہیں لڑ سکتا کیونکہ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ۔وہ شائد فلسفیوں کے انداز میں بات کرکے مجھے متاثر کرنا چاہتا تھا۔
لگتا ہے ،آپ نے ہمارے بارے میں کچھ نہیں پڑھا ۔اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا ،اُس نے بولنا شروع کردیا اور اس انداز سے بولا کہ میرے پاس خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ایک روز گوتم بدھ کے پیروکار اس کے سامنے جمع تھے اور سخت حیرت اور تذبذب کے عالم میں اُس کی جانب دیکھ رہے تھے ،گوتم بدھ نے بھی شائد زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے پیروکاروں کی آنکھوں میں اتنی حیرت، اتنی بے یقینی اور اتنی بے بسی دیکھی تھی ورنہ وہ تو اُس کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے لیکن یہ معاملہ ہی ایسا تھا کیونکہ گوتم بدھ نے تھوڑی دیر پہلے اُنہیں ایک حکم دے کر سخت تذبذب میں ڈال دیا تھا۔اُس نے کہا تھا کہ تم مہینے میں کم از کم ایک ہفتہ بھیک پر گزارہ کرو گے ،لوگوں سے مانگ کر کھاؤ گے ۔بات صرف یہیں تک محدود نہیں تھی ،گوتم بدھ نے بعض پیروکاروں کے لئے زندگی بھر بھیک مانگنا لازمی قرار دے دیا تھا۔یہ ناقابلِ فہم بات تھی ۔۔۔۔۔کیا نہیں تھی ؟؟؟؟
بھکاری نے میری طرف دیکھا اور اپنی بات کی تائید چاہی اور جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اُس نے اپنی بات پھر سے شروع کی۔
گوتم بدھ کچھ دیر تک اپنے پیروکاروں کی بےبسی اور حیرانگی کا مشاہدہ کرتا رہا،پھر بولا۔
کیا تم جانتے ہو کہ دنیا میں انسان کے لئے سب سے زیادہ تباہ کُن چیز کونسی ہے ۔“؟
بیشتر پیروکاروں نے اپنی اپنی عقل کے مطابق جواب دیئے ۔بعض نے عورت اور دولت کی ہوس کو انسان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ اقرباء پروری ،بے ایمانی، بدعنوانی اور دھوکہ دہی جیسی چیزیں بڑی سے بڑی طاقتور ریاست کو بھی تباہ کر دیتی ہیں ۔جب سب اپنی اپنی رائے کا اظہار کر چکے تو گوتم بدھ گویا ہوا ۔
آج یہ بات جان لو کہ میری تعلیم اور میرے ہر عمل کا مقصد تمہیں اسی خطرناک ترین مرض سے بچانا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے بیشتر اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔اگر بھیک مانگنے کو تم سزا سمجھتے ہو تو سمجھو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس تمہیں اس مرض سے بچانے کا واحد علاج یہی رہ گیا ہے۔
گوتم بدھ بول رہا تھا اور پیروکار خاموش تھے لیکن ابھی تک اُنہیں پیشوا سے مطلوبہ جواب نہیں ملا تھا ، وہ اب بھی نہیں سمجھ پائے تھے کہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے جیسی انتہائی سخت سزا اُنہیں کس پاداش میں دی گئی ہے ۔ان کی بے چینی، بے بسی اور تذبذب میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ ایک لحاظ سے گوتم بدھ نے یہ باتیں کرکے اُن کے اضطراب کو مزید بڑھا دیا تھا۔
گوتم بدھ نے توقف کیا اور کچھ دیر تک اپنے پیروکاروں کا جائزہ لیتا رہا ،پھر بولا۔
انسان کے لئے سب سے زیادہ تباہ کُن چیز اُس کے اندر چھپی ۔ میں ۔ ہے۔تم لوگ غور کرو کہ تمہاری گفتگو میں لفظ ۔ میں ۔ کا استعمال بہت بڑھ رہا ہے ۔تم لوگ ۔ انا ۔ کے سات ساتھ ۔ غرور اور تکبّر ۔ کے مرض میں مبتلا ہورہے ہو جس کا سدِّ باب کرنا ضروری ہے۔
گوتم بدھ نے اپنے اُن چند پیروکاروں کی طرف غور سے دیکھا جنہیں اُس نے تمام عمر بھیک پر گزارہ کرنے کا حکم دیا تھا ، اُن کے چہروں کا رنگ تبدیل ہوچکا تھا کیونکہ اُن میں سے بیشتر امراء اور دولت مند تھے اور اپنے دور کے سخی کہلاتے تھے۔
گوتم بدھ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر بولا، تم میں سے زیادہ تر لوگ غریبوں کی مدد کے نام پر اُن پر اپنی دولت کا رعب جماتے ہیں ۔تم اُن پر احسان کرتے ہو تاکہ وہ تمہاری فرمانبرداری کریں اور اس سے تمہاری ۔ میں ۔ کو تسکین ملتی رہے ۔ یاد رکھو جس نے اپنے اندر سے ۔ میں ۔ ختم نہیں کی اس نے خود کو ختم کرلیا اور جس نے ۔ میں ۔ ختم کردی وہ کامیاب ہو گیا۔
بھکاری نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ، میں بھی ایسے ہی لوگوں کی اولاد ہوں ، ان امیروں کی اولاد جو خود کو بہت کچھ سمجھا کرتے تھے ۔وہ میری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے جیب سے چند سکّے نکال کر اُس کے کشکول میں ڈال دئیے ۔میں سوچ رہا تھا کہ اس کا کام اور پیشہ انتہائی گھٹیا اور رذیل سہی لیکن اُس کا جواز کتنا عظیم ترین تھا ۔
وہ آگے چلا گیا لیکن وہ بلند آواز میں مسلسل پکارے جا رہا تھا ، جس نے اپنے اندر سے ۔ میں ۔ ختم نہیں کی اُس نے خود کو ختم کرلیا ، اور جس نے ۔ میں ۔ ختم کرلی وہ کامیاب ہو گیا۔
(دسترخوان کا اداریہ ریاض احمد منصوری کے قلم سے ) اچھا لگا سوچا آپ سب سے شیئر کیا جائے۔)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪[/align:949f6103e7]