دِگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرّہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
متاعِ دین و دانش لُٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خُوںریز ہے ساقی
وہی دیرینہ بیماری، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
نہ اُٹھّا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہزاروں سے
وہی آب و گِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سُلطانی
بَہا میری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی
علامہ اقبال