چائے کے ساتھ ٹیلی پیتھی

محبوب الحق

محفلین
چائے، کافی کا موسم ہے! سردیاں ہیں ...شروع ہوا چاہتی ہیں ... ساتھ میں پِزا بہت اچھا لگتا ہے ..کچھ خشک میوہ جات بھی ساتھ لیتے ہیں ...مونگ پھلی ہے پیکٹ والی، ساتھ بھاپ اڑاتی چائے ہے اور کچھ سوالات ..

خیال خوانی اگر عطیہ خداوندی ہے تو اسکو کیسے جانا ہہچانا جانا جائے.

ارتکاز کی مشقوں میں تسبیح کا پڑھنا بھی شامل ہے؟

خود تنویمی کیسے کی جائے؟ کچھ خود تنویمی عادات لاشعوری ہوتی ہیں مگر شعوری خود تنویمی کیسے کی جائے. سنا ہے خود تنویمی سے بیماری دور ہوجاتی ہے اگر آپ کو کینسر ہے اور خود کو بار بار کہو کہ کینسر ٹھیک ہو رہا ہے یا دو ماہ میں ختم تو وہ ہو جائے گا ... اگر کسی نے جسم کو منظم و فٹ کرنا ہے تو وہ بھی کرسکتا ہے ...

خود تنویمی سے آگے خیال خوانی. اک تو اپنے خیالات پڑھنا اک غیر انسان سمجھ کے ...یہ کیسے ممکن ہے؟ اسکو خود شناسی کہتے ...یا کہیے اپنے لاشعور سے رسائی غنود میں ممکن ہے تو غنود میں خود کو کیسے کمانڈ دی جائے. غنودگی کا حال بھی اختیاری نہیں ہے تو کیا کیا جائے ...


محترم فیصل عظیم فیصل سین خے فرقان احمد جاسمن نوید ناظم نایاب حسن نظامی محمود احمد غزنوی
  • خیال خوانی اگر عطیہ خداوندی ہے تو اسکو کیسے جانا ہہچانا جانا جائے.
جو بات ہمارے علم یا ذہن سے بالاتر ہو اور ہمیں اس سے آگاہی ہوجائے تو یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوگی۔
  • ارتکاز کی مشقوں میں تسبیح کا پڑھنا بھی شامل ہے؟
ارتکاز یعنی توجہ مرکوز کرنا ۔اس کا مقصد لاشعور میں بھٹکے ہوئے خیالات ،وسوسے کنٹرول کرنا اور خود اعتمادی کی قوت کو اجاگر کرنا ہے جس کیلئے ہمیں تنہائی اور پرسکون ماحول کی ضرورت ہو گی اور سانس کی مشق "یوگا " مفید ثابت ہوگی
  • خود تنویمی کیسے کی جائے؟ کچھ خود تنویمی عادات لاشعوری ہوتی ہیں مگر شعوری خود تنویمی کیسے کی جائے. سنا ہے خود تنویمی سے بیماری دور ہوجاتی ہے اگر آپ کو کینسر ہے اور خود کو بار بار کہو کہ کینسر ٹھیک ہو رہا ہے یا دو ماہ میں ختم تو وہ ہو جائے گا ... اگر کسی نے جسم کو منظم و فٹ کرنا ہے تو وہ بھی کرسکتا ہے ...
یہ درست ہے کہ اکثر بیماریاں وہم کے سبب زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں لیکن جو مریض با ہمت رہتے ہیں ان کی بیماری ان پر کم اثر انداز ہوتی ہے ۔ہمارے جسم میں بیماریوں سے مقابلے کے لیے مدافعتی نظام موجود ہے جو وہم کیوجہ سے کمزور پڑ جاتا ہے اور بیماری مریض پر حاوی ہو جاتی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
ہر تخلیق کی ایک یوزر مینیوئیل ہوتی ہےاور ایک مرکزی نمونہ ہوتا ہے اور یہ بنانے والے کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے تخلیق کنندہ نے بھی ہمیں کتاب و سنت کی شکل میں ایک یوزر مینیوئیل دے دی ہے اور سرکار دوعالم کی صورت مبارکہ میں ایک مرکزی نمونہ فراہم کر دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس مینیوئیل سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود کو اس مرکزی نمونہ جسے دوسرے الفاظ میں اسوۂ حسنہ بھی کہا جاتا ہے کے مطابق کس قدر کر پاتے ہیں- خود شناسی کا سفر یہ جان کر شروع ہوتا ہے کہ ہم من حیث الانسان خطاؤں غلطیوں اور تمام عیوب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس علیم و حکیم کی ہدایات پر عمل کر سکتے ہیں اور اپنی اصلاح کی سعی کر سکتے ہیں۔مثال کے طور سے ہم سب (میرے حسن ظن کے مطابق) وضو کے طریقے سے تو واقف ہیں ہی لیکن کیا کبھی وضو کے دوران ہم نے غور کیا کہ ہم ہاتھ دھو کر اپنے تخلیق کار کو کیا دیتے ہیں یقینا ہم کچھ نہیں دیتے بلکہ حاصل کرتے ہیں وہ احساس ہے پاکیزگی کا ، اس حاضری کی اہمیت کا جو ہر روز پانچ مرتبہ کم از کم ہم اپنے مینیوفیکچرر کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی ٹیوننگ کرواتے ہیں- اسی طرح نماز میں ہر شے کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم اپنے بنانے والے سے گفتگو کرتے ہیں اسی کے سکھائے ہوئے الفاظ سے ان الفاظ کے پیچھے اپنے تمام دکھ مسائل اور پیچیدگیاں کھول کر اس کے سامنے رکھتے ہوئے یہ دن میں پانچ بار کا ریچارج ہونا ہمارے شعور میں وہ آسودگی فراہم کرتا ہے جو یقینا کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی- ہر ہر لمحے ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں ۔ اللہ اکبر کہا ساری دنیا پیچھے چھوڑ دی، اپنے بنانے والے کی تعریف کی اپنی ذلت کا اقرار کیا اور اس سے وعدہ کیا کہ اے مالک تجھی سے مدد مانگتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو ہی دے ہمیں ہدایت اور رہ نمائی اس راستے کی طرف جو ہدایت کا راستہ ہے ان کا راستہ ہے جو تیرے انعام یافتگان کا راستہ ہے
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسا واقعی ہوتا ہے یا یہ بس آپ لوگوں کو متاثر کرتے ہوئے یہ باتیں کر رہا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم نماز میں کھڑے ہو کر چند عربی فقرے پڑھ کر بیک گراؤنڈ میں کاروبار، ہمسایوں کے کپڑے، فلم کی اسٹوریاں اور جائے نماز کا ڈیزائن دیکھیں گے تو امکان ہے کہ ایسا نہیں ہوگا لیکن پانچ منٹ کی نماز میں اگر ایک یا دو منٹ تک بھی وہ تصور آپ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ آپ اپنے بنانے والے کے سامنے کھڑے ہیں اور اوپر والا منظر جاری ہے تو دیکھیئے گا خود شناسی کا کون کون سا باب آپ پر وا ہوتا ہے - یہاں آپ میں سے خود کو الگ ہوتے ہوئے دیکھیں گے اپنی برائیاں دیکھیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک تنویمی سطح تک پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ
آہستہ آہستہ ایمبیڈمنٹ کا یہ عمل آپ کو صفائی اور اصلاح کا وہ عمل جاری کرتا ہے جس سے آگے نہ تو خالق حقیقی سے تعلق کی کوئی رکاوٹ باقی رہتی ہے نہ کوئی پردہ رہتا ہے اب اس غیر ارادی ریفلیکس کی باری آتی ہے جو آپ ارادے کے تابع کرنا چاہتی ہیں۔ تو اس کے لیئے اپنی مطابقت آپ کو اس بنیادی نمونہ کے مطابق کرنا ہوگی۔ جتنا جتنا مطابقت زیادہ ہوگی اتنا اتنا یہ ریفلیکسز ارادے کے تابع ہوتے جائیں گے۔ جو جو دعائیں پڑھیں گی اگر ترجمہ پڑھ سمجھ کر خود پر طاری کر کے پڑھیں گی نہیں بلکہ اللہ سے بات کریں گی تو یقین رکھیئے یہ سب کچھ قابو میں آجائے گا ۔ ان شاء اللہ
یہ حالت جس میں ذہن کو مصفی کرنا ہو، رب کے روبرو ....... مینوئل کو پڑھا، مینوئل کو لاگو کرنا .... مینوئل کو سمجھنا .. اسوہ ء حسنہ کو لاگو کرنے سے متعلق سوال پوچھ. ..... یہ اتنا آسان بھی ہوتا ہے کیا؟ میں نے قران پاک کو ایسے پڑھنے کی کوشش بھی کی ہے مگر ابھی آپ جیسی کنڈیشنگ نہیں ہوئی دماغ کی یا آپ کچھ کھل کے وضاحت کیجیے تاکہ کچھ اور کلو مل جائے
 

احمد محمد

محفلین
السّلام علیکم!

اس دھاگہ میں احباب کی شرکت کا تناسب تو قابلِ ستائش ہے مگر صرف چائے، کافی، مونگ پھلی اور سردیوں کی حد تک۔ اور سوالات جوں کے توں ہیں۔

ایسا لگا جیسے مہمانوں نے کھانا کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور سلاد رائیتہ سب چٹ کر گئے ہوں۔ :D

یہ بھی لگتا ہے کہ احباب علم سینوں میں دفن ہی رکھیں گے اور طالب کی تشنگی ہمیشہ باقی رہے گی۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
پھر تو شراب پینے والے بھی شراب کے"مزے " کو چائے سے تشبیہ دیتے ہونگے ۔ :D

بہرحال۔۔۔ ہمیں تو چائے اور چاہ کی اس دیس میں ہمیشہ سے ہی تلاش رہی مگر مجال ہے دونوں میں سے کوئی بھی ایک چیزہاتھ لگی ہو ۔ شاید اس دیس یہ دونوں چیزیں ہی ناپید ہیں ۔ بہرحال کافی میسر ہے تو پیتے ہیں مگر یہ کہہ نہیں سکتے اس کا ذائقہ کس چیز جیسا ہوتا ہے ۔:)
بہرحال یہاں چائے کے ساتھ مونگ پھیلیاں بھی نظر آئیں۔ پیزے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا یا کہ اس سے ہمیں تیزابیت ہوجاتی ہے ۔ چلیں ذرا سوالات کو بھی دیکھتے ہیں ۔

خیال خوانی کا عطیہ خد اوندی کے طو رپر اگر ملا ہے تو آپ کو اپنے خیالات ضرور کنٹرول کرنے آتے ہونگے۔ اگرآپ کے خیالات آپ کے کنٹرول میں ہیں تو بس سمجھ لیجئے کہ آپ میں خیال خوانی کی صلاحیت موجود ہے ۔
بصورتِ دیگر جب اپنے ہی خیالات اور سوچ کنٹرول نہ ہوسکیں تو کسی کے خیالات کیاکنٹرول ہونگیں ۔
ارتکاز دراصل یکسوئی ہے ۔ آپ اس یکسوئی کو کیسے حاصل کرتے ہیں ۔ یہ آپ پر منحصر ہے ۔ آپ تسبیح پڑھیں یا آلتی پالتی مار کی بیٹھ جائیں ۔ بس یکسوئی شرط ہے ۔
خود تنویمی رابطےکی ایک شکل ہے ۔ غیر شعوری تنویمی عموماً منتشرلہروں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جو کبھی اپنے ہدف کو فوکس نہیں کرسکتی۔ جبکہ شعوری خود تنویمی ایک مکمل پریکٹس ہے ۔جو ہمالیہ کے سرد پہاڑوں پر جیسی تپسیا کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے ۔ :D
خود تنویمی محدود فاصلے سےمشروط ہے جبکہ خیال خوانی کی کوئی حد نہیں ۔ غنود دماغ کےوقفے کا پریڈ ہے ۔اس دوران دماغ شعور اور لاشعوردونوں سے جزوی طور پر غیر منسلک ہوجاتا ہے ۔اس وقفے میں دماغ ضروری اور غیر ضروری ڈیٹا پرکھ رہا ہوتا ہے ۔جو خواب صورت میں پروسیس ہو رہا ہوتا ہے ۔ اس وقفے کو شعور اور لاشعور کی درمیانی کیفیت سمجھ لیں ۔چونکہ اس دوران دماغ سلیپ موڈ میں ہوتا ہے تو اس حالت میں کمانڈ نہیں دی جاسکتی۔ :D

ارتکاز، یکسوئی کا خیال خوانی کیساتھ کیا تعلق ہے؟
آپ نے کبھی ٹیلی پیتھی کی، ایسے لگتا ہے ورنہ ہمالیہ سے موازنہ نہ ہوتا؟
میں سمجھتی ہوں غنودگی سے پہلے کمانڈ دی جاتی ہے اور جب غنود سے اٹھتے ہیں تو جسم وہی کام کر رہا ہوتا ہے جو ہم نے چاہا ہوتا ہے

غنود میں ضروری اور غیر ضروری ڈیٹا اکٹھا خواب میں ہوتا ہے؟ یہ خواہشات و میلانات ہوتے ہیں یا کچھ اشارے بھی؟
 

نور وجدان

لائبریرین
  • خیال خوانی اگر عطیہ خداوندی ہے تو اسکو کیسے جانا ہہچانا جانا جائے.
جو بات ہمارے علم یا ذہن سے بالاتر ہو اور ہمیں اس سے آگاہی ہوجائے تو یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوگی۔
  • ارتکاز کی مشقوں میں تسبیح کا پڑھنا بھی شامل ہے؟
ارتکاز یعنی توجہ مرکوز کرنا ۔اس کا مقصد لاشعور میں بھٹکے ہوئے خیالات ،وسوسے کنٹرول کرنا اور خود اعتمادی کی قوت کو اجاگر کرنا ہے جس کیلئے ہمیں تنہائی اور پرسکون ماحول کی ضرورت ہو گی اور سانس کی مشق "یوگا " مفید ثابت ہوگی
  • خود تنویمی کیسے کی جائے؟ کچھ خود تنویمی عادات لاشعوری ہوتی ہیں مگر شعوری خود تنویمی کیسے کی جائے. سنا ہے خود تنویمی سے بیماری دور ہوجاتی ہے اگر آپ کو کینسر ہے اور خود کو بار بار کہو کہ کینسر ٹھیک ہو رہا ہے یا دو ماہ میں ختم تو وہ ہو جائے گا ... اگر کسی نے جسم کو منظم و فٹ کرنا ہے تو وہ بھی کرسکتا ہے ...
یہ درست ہے کہ اکثر بیماریاں وہم کے سبب زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں لیکن جو مریض با ہمت رہتے ہیں ان کی بیماری ان پر کم اثر انداز ہوتی ہے ۔ہمارے جسم میں بیماریوں سے مقابلے کے لیے مدافعتی نظام موجود ہے جو وہم کیوجہ سے کمزور پڑ جاتا ہے اور بیماری مریض پر حاوی ہو جاتی ہے
مدافعاتی نظام کا وہم سے جو تعلق ہے اسکے بارے میں کھل کے وضاحت کیجیے. جسم کا مدافعاتی نظام کا کنٹرول ہی اصل کنٹرول ہے... اس میں تنفس، ہاضمہ، اخراج، اعصاب ... شاید سب شامل ہیں ... جو قوت اسکو چلا رہی ہے وہ ہے مدافعاتی ...اس قوت کو کیسے مربوط کیا جائے شعور کیساتھ کہ یہ سب لاشعوری ہے. یہی مرکز توجہ نقطہ بھی ہے ......
 

نور وجدان

لائبریرین
السّلام علیکم!

اس دھاگہ میں احباب کی شرکت کا تناسب تو قابلِ ستائش ہے مگر صرف چائے، کافی، مونگ پھلی اور سردیوں کی حد تک۔ اور سوالات جوں کے توں ہیں۔

ایسا لگا جیسے مہمانوں نے کھانا کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور سلاد رائیتہ سب چٹ کر گئے ہوں۔ :D

یہ بھی لگتا ہے کہ احباب علم سینوں میں دفن ہی رکھیں گے اور طالب کی تشنگی ہمیشہ باقی رہے گی۔ :)
کچھ آپ بھی اپنے علم سے مستفید کیجیے
 

احمد محمد

محفلین
اجی ہم تو خود دھیان لگائے بیٹھے ہیں فیض پانے کو۔ اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ہم خود توجہ کے ارتکاز میں کمی کا شکار ہوں۔ :)

میرے خیال میں آپ کو مراقبہ کی مشق کرنی چاہیے۔ :)
 

محبوب الحق

محفلین
مدافعاتی نظام کا وہم سے جو تعلق ہے اسکے بارے میں کھل کے وضاحت کیجیے. جسم کا مدافعاتی نظام کا کنٹرول ہی اصل کنٹرول ہے... اس میں تنفس، ہاضمہ، اخراج، اعصاب ... شاید سب شامل ہیں ... جو قوت اسکو چلا رہی ہے وہ ہے مدافعاتی ...اس قوت کو کیسے مربوط کیا جائے شعور کیساتھ کہ یہ سب لاشعوری ہے. یہی مرکز توجہ نقطہ بھی ہے ......
جیسے کہ سردرد ہے تو ہمیں وہم ہوگیا کہ شاید سردرد ختم ہونے والا نہیں یہ فلاں بیماری ہے فلاں بیماری ہے تو سردرد بجائے کم ہونے کے بڑھتا چلا جائے گا
اور اگر ہم نظرانداز کریں تو چند ہی منٹوں میں سردرد ختم ہو جائے گا اسی طریقے سے جب کسی بھی بیماری کو ہم خطرناک سمجھ لیتے ہیں اور پریشان ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارا نظام ہضم متاثر ہوتا ہے جس سے بھوک میں کمی آجاتی ہے اور کمزوری ہو جاتی ہے جو براہ راست ہمارے جگر اور دماغ کو متاثر کرتی ہے اس طرح ہم اس بیماری میں مکمل طور پر جکڑ جاتے ہیں اور کوئی دوا بھی اثر نہیں کرتی اور ہمارا مدافعتی نظام کام چھوڑ دیتا ہے
 
آخری تدوین:

محبوب الحق

محفلین
ارتکاز، یکسوئی کا خیال خوانی کیساتھ کیا تعلق ہے؟
آپ نے کبھی ٹیلی پیتھی کی، ایسے لگتا ہے ورنہ ہمالیہ سے موازنہ نہ ہوتا؟
میں سمجھتی ہوں غنودگی سے پہلے کمانڈ دی جاتی ہے اور جب غنود سے اٹھتے ہیں تو جسم وہی کام کر رہا ہوتا ہے جو ہم نے چاہا ہوتا ہے

غنود میں ضروری اور غیر ضروری ڈیٹا اکٹھا خواب میں ہوتا ہے؟ یہ خواہشات و میلانات ہوتے ہیں یا کچھ اشارے بھی؟
  • میں سمجھتی ہوں غنودگی سے پہلے کمانڈ دی جاتی ہے اور جب غنود سے اٹھتے ہیں تو جسم وہی کام کر رہا ہوتا ہے جو ہم نے چاہا ہوتا ہے
میں آپکی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں اگر یکسوئی حاصل ہو جائے تو ہماری کمانڈ نہ صرف شعور بلکہ لاشعوری طور پر بھی کام کرے گی
 

نور وجدان

لائبریرین
شاید آپ کو CPH4 کثیر مقدار میں لینا چاہیے۔ :D


مزید رہنمائی کے لیے Luc Besson کی فلم Lucy دیکھیں۔ (اگر نہیں دیکھی تو)۔
سائنسی قوانین، فکشن کا اس سے دور دور تک کوئی نشان نہیں ... آپ نے اس دوائی کا اصل میں استعمال پڑھا ہی نہیں یا شاید آپ نے پڑھ کے سمجھا ہی نہیں:)
 

احمد محمد

محفلین
سائنسی قوانین، فکشن کا اس سے دور دور تک کوئی نشان نہیں ... آپ نے اس دوائی کا اصل میں استعمال پڑھا ہی نہیں یا شاید آپ نے پڑھ کے سمجھا ہی نہیں:)

یقیناً آپ نے درست اندازہ لگایا میں واقعی اس سے لاعلم ہوں اور صرف نام کی حد تک واقفیت ہے۔ مگر شاید آپ نے فلمی حوالہ نہیں دیکھا اور اگر آپ نے حوالہ دیکھا ہے تو غالب امکان ہے کہ آپ نے فلم نہیں دیکھی۔ میں نے تو محض مذکورہ فلم کے تناظر میں از راہِ تَفنُّن مشورہ دیا۔:):)
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
ارتکاز، یکسوئی کا خیال خوانی کیساتھ کیا تعلق ہے؟
آپ نے کبھی ٹیلی پیتھی کی، ایسے لگتا ہے ورنہ ہمالیہ سے موازنہ نہ ہوتا؟
میں سمجھتی ہوں غنودگی سے پہلے کمانڈ دی جاتی ہے اور جب غنود سے اٹھتے ہیں تو جسم وہی کام کر رہا ہوتا ہے جو ہم نے چاہا ہوتا ہے

غنود میں ضروری اور غیر ضروری ڈیٹا اکٹھا خواب میں ہوتا ہے؟ یہ خواہشات و میلانات ہوتے ہیں یا کچھ اشارے بھی؟

میں نے وہ تمام باتیں صرف شگف کے طور پر کیں تھیں ۔ باہر کی دنیا سمجھ نہیں آ ئی تو اندر کی دنیا کی کیا جستجو کی جائے ۔ :)
 
یہ حالت جس میں ذہن کو مصفی کرنا ہو، رب کے روبرو ....... مینوئل کو پڑھا، مینوئل کو لاگو کرنا .... مینوئل کو سمجھنا .. اسوہ ء حسنہ کو لاگو کرنے سے متعلق سوال پوچھ. ..... یہ اتنا آسان بھی ہوتا ہے کیا؟ میں نے قران پاک کو ایسے پڑھنے کی کوشش بھی کی ہے مگر ابھی آپ جیسی کنڈیشنگ نہیں ہوئی دماغ کی یا آپ کچھ کھل کے وضاحت کیجیے تاکہ کچھ اور کلو مل جائے
اگر خود پر لاگو کرنا اتنا مشکل ہوتا تو اس کے لاگو کرنے کے حکم نامے پر ۔۔۔۔۔لکم ۔۔۔( تمہارے لیئے) کا تخاطب عام نہ ہوتا بلکہ کوئی اور تخصیص ہوتی ۔ ہاں جتنے بڑے عالم بننے کی کوشش کریں گے اتنا علم زیادہ درکار ہوگا اور جتنا علم زیادہ ہوگا ذمہ داری اور حساب بھی اتنا ہی بڑا ہوگا لہذا سب کچھ جاننا ضروری نہیں بلکہ جتنا براہ راست متعلقہ ہو اتنا ہی جاننا ضروری ہے البتہ مرکزی کونیکٹر کے ساتھ کونیکشن کا قائم رہنا بہت ضروری ہے جو عبادات کا حق ادا کرنے کی سعی سے ہی قائم رہتا ہے


صرف کوشش کریں کہ یہ سوچ سمجھ کر قرآن کا مطالعہ فرمائیں کہ اس کا مخاطب ہم ہیں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے

دنیا کو درست کرنے کے سفر پر خود سے مت نکلیں اپنی اصلاح کا سفر شروع کریں اگر دوسرا سفر آپ کے لیئے مقدر ہے تو آپ اس پر چلیں گے نہیں تو اپنی اصلاح تو ہوگی ہی ہوگی

ان شاءاللہ
 
آخری تدوین:
شاید آپ کو CPH4 کثیر مقدار میں لینا چاہیے۔ :D


مزید رہنمائی کے لیے Luc Besson کی فلم Lucy دیکھیں۔ (اگر نہیں دیکھی تو)۔
لوسی نام کی فلم کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو چند باتیں یاد رکھیں ۔
۱۔ یہ فلم پیسہ کمانے کے لیئے بنائی گئی تھی لہذا اس میں حقائق کو اس فلم کے مرکزی خیال کے ساتھ ایسے گڈمڈ کیا گیا ہے کہ وہ سب اصل محسوس ہو اور کہانی میں دلچسپی قائم رہے اور وہ دیکھنے والے کو آخر تک بٹھا کر رکھ سکے۔
۲۔ جس دوا کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ دوا حقیقت میں موجود ہو ایسا لازم نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو اس کے ایسے اثرات ہوں ایسا بھی لازم نہیں ہے۔ بلکہ اگر ایسی کوئی دوا ہوتی اور اس کے اس کا دس فیصد بھی اثرات ہوتے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ فلم کبھی عوام الناس تک پہنچتی۔۔؟؟
۳۔ ہم انسان اپنے دماغ کا بالکل ہر حصہ استعمال کرتے ہیں اور سو فیصد دماغ کا کوئی ایک بھی حصہ ایسا نہیں جو استعمال نہ ہوتا ہو البتہ مختلف کاموں میں دماغ کے مختلف حصے استعمال ہوتے ہیں لہذا ایک ہی وقت میں پورا دماغ استعمال ہو یہ ممکن نہیں ۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک ہی لمحے میں آپ بات کر بھی رہے ہوں اور عین اسی وقت دوڑ بھی رہے ہوں اور نہا بھی رہے ہوں اور کھا بھی رہے ہوں اور پی بھی رہے ہوں اور سو بھی رہے ہوں۔ کیونکہ ان تمام کاموں میں دماغ کے مختلف حصے استعمال ہوتے ہیں بلکہ کچھ تو ایک حصہ استعمال کرنے کو کسی دوسرے کام کے ساتھ مشترکہ طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔
 
میں نے وہ تمام باتیں صرف شگف کے طور پر کیں تھیں ۔ باہر کی دنیا سمجھ نہیں آ ئی تو اندر کی دنیا کی کیا جستجو کی جائے ۔ :)
گستاخی پر محمول مت کیجئے گا:-
صرف اندر جھانکنا ضروری ہے۔ اندر کو جان لیں باہر کی حاجت ہی نہیں رہے گی۔ سفر کے لیئے کہیں سے شروع کرنا ضروری ہے اور کہیں جانے کے لیئے کہیں نہ کہیں ہونا ضروری ہے۔ جنت میں جانے کا سفر تحت الثریٰ سے بھی شروع ہوسکتا ہے۔ جو پستی کی انتہا ہو وہی مقام ابتدا بھی ہو سکتا ہے اور جب ابتدا ہو تو ہی سفر شروع ہوتا ہے۔ سفر شروع ہو تو ہے منزل سے فاصلے کم یا زیادہ ہوتے ہیں لہذا سفر شروع کرنا ضروری ہےاور نقشہ دیکھ کہ یہ جانا جا سکتا ہے کہ سمت درست ہے یا نہیں اور فاصلے کم ہو رہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں بس نقشہ درست ہونا چاہیئے۔
 
کیا دل سے بھی خیال کا کوئی تعلق ہے؟
اس سے پہلے کہ دل کے خیال سے تعلق پر گفتگو ہو یہ جاننا ضروری ہے کہ دل کسے کہا یا سمجھا جا رہا ہے۔ کیا اس عضلے کو جو سارے جسم میں خون کی فراہمی کرتا ہے۔ یا پھر سوچ کے اس مرکز کو جس کے گرد ہم اپنی اپنی دنیا کا تانا بانا بنتے ہیں
 
آخری تدوین:
Top