ماشاءاللہ!
خوشذائقہ بھنڈی بنانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔
کہتے ہیں، کسی کی پکوائی کے فن کی تشخیص کرنی ہو تو دیگر اشیاء مثلاً ماش کی دال وغیرہ کے علاوہ اس سے بھنڈی بھی پکواتے ہیں۔
وعلیکم السلام، محفل میں آپ کا خیر مقدم ہے، پروفیسر صاحب۔
آپ یہ کالم ’قلم درازیاں‘ کون سے اخبار میں لکھتے ہیں؟ براہ کرم ایک نمونے سے سرفراز فرمائیے، بلکہ یہاں پر بھی ایک لڑی کھول کر (اخبار میں چھپنے کے بعد) پوسٹ کر دیا کریں۔
مغربی معاشرے میں یہ ملاقاتیں چوری چوری تو نہیں، بلکہ سر عام ہوتی ہیں۔ بلکہ کسی حد تک اس کی تشہیر بھی ہوتی ہے۔ البتہ ہو سکتا ہے ہمارے ہاںمعاملہ ذرا مختلف ہو۔:)
جناب دوست, کے ساتھ تبادلہ خیال سے معلومات میں یہ اضافہ ہوا ہے کہ گوگل اور دیگر ادارے اس موضوع پر لگا تار کام کررہے ہیں اور پروگرامنگ (ٹیگنگ) کے شعبدوں سے اردو عبارت میں شاید کچھ بہتری آ جائے، لیکن ’ہنوز دلی دور است‘۔ بہر حال امید پہ دنیا قائم ہے۔