سخنور میں نے جس کتاب سے یہ نظم لکھی ہے وہ ایک مستند پبلشر کی کتاب ہے تو شک کی کوئی گنجائش نہیں میرے پاس ، ہاں آپ کو یہ نظم فیض کی نہیں لگتی تو آپ فیض کی کلیات میں تلاش کر لیں۔
شکریہ فاتح، میرے پاس ایک مجموعہ ہے مشہور شعراء کی نظمیں اور غزلیں کے عنوان سے ، اُس میں یہ نظم لکھی ہوئی ہے فیض احمد فیض کی ، فیض کے کس کتاب میں ہے یہ میں نہیں بتاسکوں گی۔
تم جو پل کو ٹھہر جاؤ تو یہ لمحے بھی
آنے والے لمحوں کی امانت بن جائیں
تم جو ٹھہر جاؤ تو یہ رات ، مہتاب
یہ سبزہ ، یہ گلاب اور ہم دونوں کے خواب
سب کے سب ایسے مباہم ہوں کہ حقیقت ہو جائیں
تم ٹھہر جاؤ کہ عنوان کی تفسیر ہو تم
تم سے تلخیء اوقات کا موسم بدلے
رات تو کیا بدلے گی ، حالات تو کیا...
وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا
وہ دوسروں سے مگر مجھ کو کچھ جدا سا لگا
مزاج اُس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
وہ جس کی کم سُخنی کو غرور سمجھا گیا
میری نگاہ کو وہ پیکرِ حیا سا لگا
میں اپنے کرب کی روداد اُس سے کیا کہتا
خود اُس کا دل بھی مجھے کچھ...
فاتح ، آپ نے اللہ حافظ بھی کہہ دیا اور پھر لکھا کہ سحری کر کے جاؤں تو اب کیا کروں :) ویسے مجھے یہاں سحری کوئی لا کے نہیں دے سکتا تو مجھے ہی جانا ہوگا کچن تک لہٰذا اب بریک آرام و سحری ۔۔۔
آ ۔۔ کسی شام ، کسی یاد کی دہلیز پہ آ
عمر گزری ہے تجھے دیکھے ہوئے
یاد ہے ، ہم تجھے دل مانتے تھے
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدّی بچّہ
تیری ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتا تھا
تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر
ایک جیون کی تمناؤں کی بینائی سے
ہم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے...
او دیس سے آنے والے بتا
او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
آوارء غربت کو بھی سُنا
کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن فردوسِ وطن
وہ سروِ وطن ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی...
اعترافِ محبت۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
لو آؤ کے رازِ پنہاں کو رسوائے حقیقت کرتا ہوں
دامنِ زبانِ خاموشی کو لبریزِ شکایت کرتا ہوں
گھبرا کے ہجومِ غم سے آج افشاں ، افشائے حقیقت کرتا ہوں
اظہار کی جرّات کرتا ہوں
میں تم سے محبت کرتا ہوں
فِکر آباد دنیا میں مری ،اِک مسجود افکار ہو تم
شاعرستانِ ہستی...