بہت عمدہ انتخاب۔۔۔ بہت شکریہ جناب
جزاکم اللہ خیرا۔
اس شعر کا دوسرا مصرع شاید کچھ تبدیل ہوکر بے وزن ہوگیا ہے:
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہُوں میں تمہارے خیال میں
ممکن ہے یوں ہو:
بیٹھا ہوں مست ہوکے تمھارے خیال میں
یا
بیٹھا ہوں ہوکے مست تمھارے خیال میں
یا کچھ اور۔۔۔
پسند فرمانے کا بہت شکریہ۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔
(از راہِ تفنن: پہلے تو میں آپ کا تبصرہ پڑھ کر کچھ پریشان ہوا کہ آپ کے اس جملے: ”اکٹر شاہ آخر کو اکٹر شاہ جو ہوا۔“ میں کیا چیز کھٹک رہی ہے، پھر میری پروف ریڈنگ کی حس نے بالآخر اس الجھن کو پکٹر(پکڑ) ہی لیا۔۔۔۔۔۔ دیکھیں پکڑ اور پکٹر میں کیا فرق ہے؟:))
محروم نہیں ہوتا خدا کا متلاشی
ہوتا ہے شفایاب دوا کا متلاشی
بھوکا نہیں رہتا ہے پرندہ وہ کسی دن
ہوتا ہے جو ہر روز غذا کا متلاشی
ملتا ہے ہمیں قصۂ موسیٰ میں یہ نکتہ
پاتا ہے تقرب کو ضیا کا متلاشی
قوت تو ہے ، پر قوتِ برداشت نہیں ہے
ہر اک ہے فقط مدح و ثنا کا متلاشی
تو خالقِ جسم و دل و جاں ہے مرے...
اکڑشاہ نے شاعری کی
تھا موسم سہانا کسی رات میں
اکڑشاہ نکلا تھا برسات میں
اکڑشاہ بے حد نہانے لگا
مزہ خوب رم جھم کا پانے لگا
نہاتے نہاتے خیال آیا ایک
اکڑشاہ کے دل پہ حال آیا ایک
کہ موسم بھی اچھا ہے ، دل بھی جواں
چلا ہونے شاعر کا خود پر گماں
گھر آکر قلم اور کاغذ لیا
بڑے غور سے سوچنے لگ گیا
اکڑ...
ماشاءاللہ بہت خوب محنت کی ہے۔
میں بھی شروع میں اسے بے بحری سمجھ رہا تھا، یہ تو اچھا ہوا آپ نے وزن بتادیا۔
بہت سی داد۔
اگر استاد جی کی ہدایات پر عمل کرلیں تو سونے پر سہاگا ہوجائے گا۔۔۔۔