ہم ایک فکر کے پیکر ہیں، اک خیال کے پُھول
ترا وجود نہیں ہے، تو میرا سایہ نہیں
کہاں سے لاؤں وہ دل، جو تیرا بُرا چاہے
عدوئے جاں، تیرا دکھ بھی کوئ پرایا نہیں
نئ نویلی زمینوں کی سوندھی خوشبو میں
وہ چاندنی ہے، کہ جس میں کوئ نہایا نہیں
وہ روشنی ہے کہاں، جس کے بعد سایہ نہیں
کسی نے آج تلک...