کہیں دیکھا تھا کہ مولانا نے یہ غزل اس وقت کہی جب شمس تبریزی دمشق سے قونیہ واپس آگئے تھے لیکن ابھی قتل (یا پھر غائب) نہیں ہوئے تھے۔ مولانا نے اسی تناظر میں یہ غزل کہی تھی کہ یہ خوشی ہمیشہ رہے اور ختم نہ ہو۔ اسی منظر کے لئے یہ استعارات و تشبیہات استعمال کی گئیں تھیں۔ اس کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں...