سر یہ غزل کافی عرصہ سے مکمل نہیں ہو سکی تھی کہ رات کراچی سے آتے ہوئے اچانک کچھ اس طرح ذہن میں آئی ہے، ملاحظہ ہو۔
دشت، صحرا، سراب باقی ہیں
تشنگی کے عذاب باقی ہیں
دیکھ کر جن کو خون جلتا ہے
چشمِ نم میں وہ خواب باقی ہیں
چھوڑ کر جا چکے سبھی ہمدم
ایک دو ہم رکاب باقی ہیں...
جیلانی صاحب بہت شکریہ، میں یہ جواب آپکو نہیں دے سکتا، اساتذہ سے اپیل ہیکہ وہ یہ جواب دینا فرمائیں، میں صرف اتنا کہنے کی جسارت کروں گا کے اگر جو کی جگہ کو لگایا جائے تو شعر کی تفہیم تبدیل ہو جائے گی۔ مزید اساتذہ کرام سے درخواست ہے۔
ایک تازہ غزل آپکی نذر۔
صحنِ دل میں تماشا کیسا ہے
شور و غل بے تحاشہ کیسا ہے
دشتِ کربل میں مردِ مومن نے
عشقِ یزداں تلاشا کیسا ہے
ماتمِ عشق ہے بپا ہر سو
بج رہا پھر یہ طاشا کیسا ہے!
ذہنِ ویراں نے دستِ لرزاں سے
اک صنم جو تراشا، کیسا ہے؟
کون آیا ہے آج گلشن میں
گل پہ طاری یہ رعشہ...
شہر کرے طلب اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو
ایک علاجِ دائمی ہے تو برائے تشنگی
پہلے ہی گھونٹ میں اگر زہر ملا دیا کرو
واہ واہ بہت ہی خوب، واہ واہ
بہت شکریہ فاتح صاحب، شامل کرنے کا
استادِ محترم میں نے مذکررہ بالا اشعارہ کو یکسر بدل ڈالا ہے اب ذرا ملاحظہ ہوں۔
دشتِ کربل میں عشقِ یزداں نے
دیکھ سجدہ تلاشا کیسا ہے
ذہنِ ویراں نے دستِ لرزاں سے
اک صنم جو تراشا، کیسا ؟
فاتح صاحب اور مغل صاحب آپ سے بھی تکلیف کرنے کی گزارش ہے۔ شکریہ۔