اللہ اللہ کیا سفر کیا روح پرور خواب تھا
فرشِ ریگِ راہِ طیبہ بسترِ سنجاب تھا
نطقِ جاں شیرینیء مدحت سے لذت یاب تھا
یہ کتابِ زندگی کا اک درخشاں باب تھا
ارضِ طیبہ پر قدم تو کیا ، نظر جمتی نہ تھی
"ذرہ ذرہ روکشِ خورشیدِ عالم تاب تھا "
بن گیا اشکِ ندامت میری بخشش کا سبب
بربطِ امید کب سے تشنہء...