جگوں سے ترے در کے آگے کھڑا ہوں میں
اک دائمی پیاس لے کر
بجھی آس لے کر
مرے جلتے ماتھے کو
صندل ہتھیلی کی سوغات دے
میرے تن کے بیاباں کو
شبنم گلابوں کے باغات دے
میری چھاتی کے بنجر کو اکرام کی سبز برسات دے
شک کی سرحد پہ بھٹکے ہوئے کارواں کو
جرس کی صداؤں سے مسحور کر
روح کے تشنہ پیالے کو...