عشق کی بیتابیاں تنہائیاں
حسن کی وہ انجمن آرائیاں
چشم ساقی کی اثر فرمائیاں
موجِ مے لینے لگی انگڑائیاں
و ہ بھی دل کے ذکر پر ہنسنے لگے
دور جا پہونچیں مری رسوائیاں
کچھ امیدیں ' کچھ امیدوں کے فریب
چند جلوے اور کچھ پرچھائیاں
بھول جائیں وہ تو کوئی کیا کرے !
پھر غنیمت ہے ستم آرائیاں
آہ پر خفگی نہیں...