بھول جائیں تو آج بہتر ہے
سلسلے قُرب کے جدائی کے
بجھ چکی خواہشوں کی قندیلیں
لٹ چکے شہر آشنائی کے
رائیگاں ساعتوں کی کیا کہیئے
زخم ہوں پھول ہوں ستارے ہوں
موسموں کا حساب کیا رکھنا
جس نے جیسے بھی دن گزارے ہوں
زندگی سے شکائیتیں کیسی
اب نہیں ہیں اگر گِلے تھے کبھی
بھول جائیں کہ جو ہوا سو ہوا...